شنگھائی تعاون تنظیم اور عمران خان

پیر 7 اکتوبر 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پُرامن احتجاج پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے اور یہ حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے ہر ممالک میں لوگ احتجاج کرتے ہیں تاکہ حکومت وقت پر دباؤ ڈال کر اپنے مطالبات منوا سکیں۔ تاہم ان احتجاج اور مطالبات کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی جواز لازمی ہوتا ہے اور اسی جواز کی بنیاد پر ہی سیاسی تحاریک کامیاب ہوتی ہیں۔

وطن عزیز میں بھی آجکل احتجاج کا موسم عین عروج پر ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے پچھلے چند دنوں سے جو احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے بظاہر ان جلسے جلوسوں کا کوئی واضح مطالبہ اور جواز نظر نہیں آرہا کہ آخر کس مقصد کے لیے وفاقی دارالحکومت پر ایک صوبائی حکومت کے وسائل استعمال کرتے ہوئے شہر کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے؟

یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف پروگرام اور ہمارا پاکستان

اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں تحریک انصاف کے روح و رواں اور بانی عمران خان کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اس جماعت کی تاریخ کا مطالعہ کرنا پڑے گا کہ یہ کیسے وجود میں آئی اور کس طرح اس پارٹی کو عروج دلوایا گیا؟

 پاکستان تحریک انصاف کا یہ خاصا رہا ہے کہ اس کے پاس نہ صرف اسٹریٹ پاور ہے بلکہ وہ اپنی اس طاقت کو استعمال کرنا  بھی جانتی ہے۔  2010 سے پہلے پی ٹی آئی عملی طور پر ایک فرد واحد پر مشتمل جماعت تھی، لیکن جب اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ پرانی سیاسی جماعتوں کے توڑ کے لیے ایک نئی متبادل جماعت ہونی چاہیے تو قرعہ فال عمران خان کے نام نکلا۔ اس حوالے سے عمران خان بہت ہی موقع شناس ہیں۔ انہوں نے اس موقع کو غنیمت جان کر بھرپور فائدہ اٹھایا ۔

عمران خان کو علم تھا کہ اس ملک میں سب سے بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور ایک اسپورٹس مین اور سیلیبریٹی ہونے کے ناتے اپنی کرشماتی شخصیت کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے اس موقع کو اپنی طاقت میں بدل لیا۔ گویا تمام ریاستی اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کو کیش کرواتے ہوئے اسٹیٹس کو کی جماعتوں کیخلاف ایک احتجاجی تحریک شروع کی اور اس احتجاج کو ہی اپنا خاصا بنالیا۔ ان کو معلوم ہوگیا کہ لوگ اسٹیٹس کو سے تنگ ہیں اور ان کی کال پر ہمیشہ لبیک کہتے ہیں، تو خان نے احتجاجی سیاست کو ہی اپنا وتیرہ بنا لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت ملنے کے بعد بھی یہ حکومت کرنے کی بجائے اپوزیشن کی مخالفت اور ان کے خلاف تحریک چلانے ہی میں مشغول رہے اور یوں ان کی حکومتی کارکردگی نہ ہونے کے برابر نظر آئی۔

یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور حالیہ عدالتی بحران

عمران خان کی شخصیت اور ان کا مائنڈ سیٹ اب ایک احتجاجی لیڈر کے روپ میں ڈھل چکا ہے۔عمران خان کا ذہن اب اس بات پر مکمل طور پر قائل ہوچکا ہے کہ لوگ احتجاجی اور مزاہمتی سیاست ہی پسند کرتے ہیں۔ کسی لیڈر کے لیے یہ سوچ  ایک نشہ بن جاتی ہے کہ لوگ اس کی ایک کال پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ جب آپ کی یہ طاقت آپ کے لیے ایک نشہ بن جائے تو پھر آپ کبھی تعمیری سیاست نہیں کر سکتے۔ آپ اپنی اسی طاقت کے نشے کو بار بار  بروئے کار لاتے اور انجوائے کرتے ہیں۔ عمران خان بھی اس وقت یہی کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت کیوں ہی عمران خان نے پُر تشدد احتجاج کا سلسلہ کیوں شروع کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے بھی آپ کو عمران خان کے مائنڈ سیٹ کو جاننا پڑے گا۔ میں نے پہلے بھی اوپر بیان کیا ہے کہ عمران خان موقع سے فائدہ اٹھانا خوب جانتے ہیں اور اب ان کے لیے ایک بہترین موقع ہے اپنے مطالبات منوانے یا کم از کم اپنے لیے کچھ رعایات لینے کا۔

پاکستان میں ایک لمبے عرصے بعد کوئی بڑا بین الاقوامی ایونٹ منعقد ہونے جارہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی اس سال پاکستان کے حصے میں آئی ہے، جس میں اس تنظیم کے رکن ممالک کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کے مندوبین بھی بطور مبصر شرکت کریں گے۔ گویا یہ ایک میگا ایونٹ ہوگا۔ دنیا بھر کے میڈیا کی نظریں اس ایونٹ پر ہوںگی۔ دنیا بھر کا میڈیا ہو اور دنیا بھر سے آئے ہوئے سربراہان مملکت بھی پاکستان آرہے ہوں اس موقع سے بھلا عمران خان کیونکر فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟

یہ بھی پڑھیں:ن لیگ کے چالاک سیاستدان

عمران خان نے  پُر تشدد احتجاج کا سلسلہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے شروع کروایا ہے تاکہ ہر دو صورتوں میں انہیں توجہ ملے۔ پُرتشدد احتجاج سے اگر یہ ایونٹ منسوخ ہوتا ہے تو عمران خان اپنے فالورز کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ دیکھا ان کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اتنے بڑے ایونٹ کو منسوخ کروا سکتے ہیں۔ اور دوسری صورت میں حکومت مجبور ہوکر کسی ڈیل کے نتیجے میں کچھ رعایات دیدے تو اس میں بھی خان ہی کی کامیابی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ریاست خان کے اس منصوبے کو ناکام بناتی ہے یا ان کی انتشاری اور احتجاجی سیاست کے آگے گھٹنے ٹیکتی ہے۔ لیکن ایک بات تو واضح ہے کہ اس پورے عمل میں نقصان صرف اور صرف پاکستان کا ہو رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp