گزشتہ ماہ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے جنرل سیکریٹری حسن نصراللہ شہید ہوگئے۔ حسن نصراللہ کی شہادت کے ردعمل میں ایران نے گزشتہ منگل کی شب اسرائیل پر 200 کے قریب بیلسٹک میزائل داغے، جس کے بعد ایرانی پاسداران انقلاب نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حملے کا مقصد حماس اور حزب اللہ کے سینیئر رہنماؤں کی شہادت کا بدلہ لینا تھا اور اگر اسرائیل نے جوابی کارروائی کی تو ایران مزید حملے کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل جنگ پاکستان کو کس طرح سے متاثر کرسکتی ہے؟
دوسری جانب اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ میزائل حملوں میں کس قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تاہم اسرائیل اس حملے کا مؤثر جواب دے گا۔
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی مختلف سمتوں میں بڑھتی پیش قدمی اور ایران کی جانب سے حالیہ حملوں کے بعد یہ تاثر عام ہے کہ خطہ اس وقت ممکنہ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کر دیتا ہے تو ایسی صورت میں پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں اس جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
ایران اور پاکستان کے درمیان تقریباً 900 کلو میٹر طویل سرحد موجود ہے، پاکستانی صوبے بلوچستان اور ایرانی صوبے سیستان اس سرحدی پٹی پر واقع ہیں اس کے علاوہ گوادر اور چابہار کے سمندری راستوں کے ذریعے بھی پاکستان اور ایران کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔
’اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا‘
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سینیئر صحافی سید علی شاہ نے کہا کہ حالیہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان اس وقت جنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہو جاتی ہے تو اس کے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، لیکن اس ممکنہ جنگ کے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
سرحد کے دونوں جانب لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے
انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات ہیں، ایک ثقافت، ایک زبان ہے، سرحدی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں، اور پھر سب سے بڑھ کر ایران کے صوبے سیستان اور پاکستان کے صوبے بلوچستان کے درمیان تجارت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگر ایران میں جنگ لگتی ہے تو سرحدی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگیاں سب سے زیادہ متاثر ہوسکتی ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس آگ سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان شدید متاثر ہوگا۔
بلوچستان میں شورش مزید بڑھنے کے امکانات ہیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے شعبے انٹرنیشنل ریلیشن کے چیئرمن ڈاکٹر نعیم احمد نے کہاکہ ایران اور بلوچستان کی سرحدی صورتحال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علاقے کی سیاست کو سمجھا جائے۔ بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے شورش کی زد میں ہے جبکہ ایرانی صوبہ سیستان میں سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اگر اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملہ کیا جاتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو یقیناً اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر نہیں، جس کی مثال ماضی قریب میں ملتی ہے جب ایران نے پاکستانی حدود میں میزائل داغے جس کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا، اگر موجودہ حالات میں جنگ ہوئی تو بلوچستان میں شورش مزید بڑھنے کے امکانات ہوسکتے ہیں۔
aira
’حملہ ہوا بھی تو مرکزی ایران پر ہوگا‘
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر نعیم احمد کا کہنا تھا کہ جنگ کی صورت میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ متاثرہ ملک کے باشندے ہمسایہ ملک کی جانب پناہ کے لیے بڑی تعداد میں آتے ہیں، لیکن اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو اس صورت میں ایران سے اس تعداد میں لوگ پاکستان کی جانب نہیں آئیں گے جیسے افغانستان کے لوگ پاکستان کی جانب آئے تھے۔ کیونکہ اسرائیل کا حملہ مرکزی ایران میں کیے جانے کا امکان ہے نہ کہ بلوچستان سے منسلک سرحدی علاقوں میں۔
انہوں نے کہاکہ اس صورت میں لوگ اس تعداد میں پاکستان کا رخ نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ اگر ایران سے لوگ پاکستان کا رخ کریں گے بھی تو مکران ڈویژن تک ہی محدود رہیں گے اور ایسے میں ملک کے مرکزی علاقوں تک ان مہاجرین کی رسائی نہیں ہوگی، تاہم جنگ کے کچھ منفی اثرات تو ہوتے ہی ہیں جن کا اثر ہمسایہ ممالک پر پڑھتا ہے۔