عدالت نے سیاسی معاملات میں مداخلت کی: جسٹس اطہر من اللہ کا اختلافی نوٹ

جمعہ 7 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات ازخودنوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللّٰہ نے 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ جاری کر دیا۔

اپنے تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ عدالت ایک غیر ثابت شدہ معاملے میں دخل اندازی سے عدالت پر عوامی اعتماد زائل ہونے کا خدشہ ہے۔

تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ اس مقدمے میں سماعت کرنے سے عدالت نے سیاسی معاملات میں مداخلت کی اور اگر فل کورٹ بن جاتی تو عدالت کو متنازعہ ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔

تفصلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تین بنیادی وجوہات کی بنا پر ازخودنوٹس کیس کو مسترد کرتے ہیں، سب سے پہلی بات کہ فل کورٹ نے ازخود نوٹس اختیارات سے متعلق کچھ اصول وضع کئے ہیں جن کو مدنظر رکھنا سماعت کرنے والے بینچ پر لازم تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی مقدمات میں عدالتوں کو اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لئے ازخودنوٹس کے اختیار میں انتہائی احتیاط برتنی چاہیے، تیسرے نمبر پر عدالت کو یہ بھی دیکھنا چاہیئے کہ عدالت میں مقدمہ دائر کرنے والا فریق کیا صحیح معنوں میں متاثرہ شخص ہے بھی یا نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے تفصیلی نوٹ میں لکھا ہے کہ کسی بھی عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیئت تب تک ہی ہوتی ہے جب تک عوام کو یقین ہو کہ عدالت آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور غیر سیاسی فیصلہ کرے گی۔

’ہمارے سامنے آنے والا مقدمہ بنیادی طور پر سیاسی ہے اور ایک ہائی کورٹ پہلے ہی اس پر فیصلہ دے چکی ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا ہے کہ مختصر وقت میں تیسری بار اس عدالت کو سیاسی معاملات میں دھکیلا جا رہا ہے۔ پہلی دفعہ اس عدالت نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر مداخلت کی اور متفقہ طور پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی اسمبلی توڑنے کے عمل کو غیرآئینی قراردیا۔

’اس کے بعد عمران خان اپوزیشن لیڈر کا عالی شان منصب قبول کرنے کی بجائے اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کے ساتھ اجتماعی استعفے دینے کا قدم اٹھایا۔ اور جب استعٖفے منظور نہیں ہوئے تو ایک بار پھر اس عدالت کو ثالثی کے لئے درخواست کی گئی۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ایک سیاسی حکمت عملی کے تحت اپنی آئینی ذمے داریاں پوری کرنے کی بجائے اسمبلی سے ایک ساتھ استعفے دیے گئے۔

’جب سیاست دان اپنے مقدمات عدالتوں میں لاتے ہیں تو کوئی بھی جیتے عدالت ہار جاتی ہے۔ جس انداز میں یہ مقدمہ چلایا گیا، اس نے عدالت کو غیر ضروری طور پر سیاسی لڑائی میں گھسیٹا۔

جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق ازخود نوٹس کے اس کیس سے عدالتوں کی آزادی اور غیر جانبداری پر حرف آئے گا کیونکہ پہلے سے تقسیم شدہ سیاسی ماحول میں سیاسی جماعتوں نے اس سماعت پر اعتراضات اٹھائے۔

الیکشن التواء کیس سے متعلق جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مقدمے کی سماعت سے نہ کبھی خود کو الگ کیا اور نہ ہی سماعت سے معذرت کی۔

‘27 فروری کو عدالت کے عقب میں موجود کمرے میں ججوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یہی طے پایا تھا کہ مذکورہ مقدمہ چار تین سے مسترد ہو چکا ہے۔ ‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp