مونال ریسٹورنٹ کے بعد ڈائنو ویلی کی باری؟ سپریم کورٹ کا نوٹس جاری

پیر 7 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اسلام آباد میں مارگلہ نیشنل پارک ایریا میں قائم تمام ریسٹورنٹس کو بند کرنے کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک میں واقع ’ڈائنو ویلی‘ کے مالک کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک توہین عدالت کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس شاہد بلال اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی شامل تھے۔ عدالت نے نجی ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کے خلاف توہین عدالت نوٹس واپس لے لیا اور ڈائنو ویلی کے مالک کو نوٹس جاری کردیا، ڈائنو ویلی کے مالک بھی لقمان علی افضل ہیں۔ عدالت نے مارگلہ ہلز میں عمارتیں گرانے کے خلاف حکم امتناع دینے والے جج کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوا دیا اور کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ دیکھے کیا اس معاملہ پر کوئی ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

’اس قسم کے ججز کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘

دوران سماعت مارگلہ ہلز میں واقع نجی ریسٹورنٹ کے مالک کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ریسٹورنٹ کی عمارت کو مسمار کردیا گیا ہے، ہم نے پیشکش کی تھی کہ عمارت کو سرکار استعمال کرلے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عمارت کا مارگلہ ہلز میں جانور کیا کریں گے، کمال  ہے سول جج سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل در آمد روک رہے ہیں، کیا سول جج نے حکم امتناع دیکر توہین عدالت کی، اس قسم کے ججز کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: مارگلہ نیشنل پارک میں قائم ریسٹورنٹس کی بندش کا فیصلہ برقرار، نظر ثانی اپیل خارج

بینچ میں شامل جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیے کہ جج انعام اللہ نے دعویٰ پر حکم امتناع جاری کیا، دعویٰ کی کورٹ فیس جمع نہیں ہوئی اور دعویٰ کورٹ فیس ادائیگی کے بغیر قابل سماعت نہیں تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ سول جج کو کیسے معلوم ہوا کہ درخواست گزار عجب گل درجہ اے کا ٹھیکیدار ہے۔

جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیے کہ پوری پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں بھی یہی ہوتا ہے، وکلا جج کو دعویٰ پڑھنے نہیں دیتے اور حکم امتناع لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج کو پہلے دیکھنا چاہیے کہ دعویٰ پر ریلیف بنتا بھی ہے یا نہیں، عدالت کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا۔

’کیا سوشل میڈیا اداروں اور ججز کو گالیاں دینے کے لیے ہے؟‘

ریسٹورنٹ کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ان کے مؤکل کا پروپیگنڈا سے کوئی تعلق نہیں، ہم نے متعلقہ جگہ کا قبضہ دے دیا ہے، جگہ بھی خالی کردی ہے، جس دعویٰ پر ریسٹورنٹ عمارت گرانے کا حکم امتناع دیا گیا وہ 2 اکتوبر کو واپس لے لیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یکم اکتوبر کو رپورٹ طلب کی، 2 اکتوبر کو عجب گل نے اپنا دعویٰ واپس لے لیا، آئین کے تحت ایگزیکٹو اور عدلیہ سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے پابند ہیں، بظاہر حکم امتناع عدالتی احکامات کی نفی کرنے کے لیے جاری کیا گیا، کیا سوشل میڈیا اداروں اور ججز کو گالیاں دینے کے لیے ہیں، کیا مارگلہ ہلز کی واگزار کرائی گئی زمین ججز کی ذاتی زمین ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مونال کی بندش کے بعد، مارگلہ ہلز پر کون سا نیا منصوبہ شروع کیا جارہا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کہا گیا کہ ریسٹورنٹ خالی کرانے سے ملازم بے روز گار ہوگئے، پھر جنگل کو لکڑیاں کاٹنے والوں کو دے دیں، لکڑیاں کاٹنے والوں کا کاروبار چل نکلے گا، کیا مارگلہ ہلز میں کمر شل سرگرمیوں کا معاملہ کسی میڈیا یا پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا، توپوں کی رخ ججز کی طرف کردیا جاتا ہے، ہمارا حکم غلط ہے تو اس پر اٹیک کریں، آرڈر پر اٹیک کی بجائے اداروں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں، یہاں ٹائمنگ کی بات کی جاتی ہے، بتا دیا کریں فلاں کیس کب اور کس بینچ کے سامنے لگنا ہے۔

ریسٹورنٹ کے وکیل احسن بھون نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 63 اے نظر ثانی سننے کی کئی درخواستیں کی، یہ کیس ڈھائی سال کے بعد سماعت کے لیے مقرر ہوا۔ چیف جسٹس بولے، ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس زیرالتوا پڑا رہا مگر کسی نے نہیں سنا، کیا اب پارلیمنٹ عدلیہ اور میڈیا میں گینگسٹر ازم سے  فیصلہ ہوں گے، انتخابات کا فیصلہ 13 دن میں دیا، انتخابات کرانے کے فیصلہ پر کسی نے گالی نہیں دی، انتخابات کیس میں کسی نے ٹائمنگ کا سوال نہیں اٹھایا، سوشل میڈیا لائیکس اور ڈسلائیکس کے لیے اداروں سے کھیلا جا رہا ہے، بڑے بڑے تھمبنیل بنائے جاتے ہیں۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختوا شاہ فیصل ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ڈائنو ویلی کی ملکیت بھی لقمان علی افضل کی ہے، جس پر عدالت نے ڈائنو ویلی کے مالک لقمان علی افضل کو نوٹس جاری کردیا۔

’ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کا تعلق جنرل فیض حمید سے تھا‘

محکمہ وائلڈ لائف کے وکیل عمر گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ نیشنل پارک میں نارتھ ریج ہاؤسنگ سوسائٹی ہے، سی ڈی اے کی اپنی رپورٹ کہتی ہے کہ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی غیرقانونی ہے، کہا جاتا ہے کہ اس ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کا ایک سابق ہائی آفیشل کے ساتھ تعلق ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ سی ڈی اے اتنا بے بس کیوں ہے، جس پر عمر گیلانی نے بتایا کہ بڑے پاور فل لوگ ملوث ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: مونال ریسٹورنٹ کے مالک کو توہین عدالت کا نوٹس جاری، ڈائنو ویلی کا ریکارڈ طلب

چیف جسٹس نے عمر گیلانی سے دریافت کیا کہ نام کیا ہے ان کا، کہیں یہ ہاؤسنگ سوسائٹی میرے نام پر تو نہیں، کہیں ایسا نہ ہو اس کا تعلق مجھ سے جوڑ دیا جائے۔ عمر گیلانی نے جواب دیا کہ کہا جاتا ہے کہ نارتھ ریج ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کا تعلق فیض حمید سے تھا، یہ میرے موکل کی ہدایت ہے، ابھی ملکیتی دستاویزات میرے پاس نہیں ہیں۔

بعدازاں، عدالت نے نارتھ ریج ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملے پر سی ڈی اے اور چیف کمشنر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہاؤسنگ سوسائٹی کی ملکیتی دستاویزات اور بلڈنگ اپروول کی تفصیلات طلب کیں اور کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp