سپریم کورٹ کے 50 سابق لا کلرکس نے عدالت عظمیٰ کے ججز کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے عدالت میں محسوس کی جانے والی تقسیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ججز سے متحد ہوکر آئین و قانون کی بالادستی کے لیے اپنا کردار ادار کرنے کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:’اب ملک میں ہارس ٹریڈنگ جائز ہوگئی‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟
واضح رہے کہ پریم کورٹ کو خط لکھنے والوں میں حال ہی میں سپریم کورٹ میں ہنگامہ آرائی کرنے اور بعد ازاں گرفتار ہونے والے وکیل سید مصطفین کاظمی کی بیٹی جگنو کاظمی بھی شامل ہیں۔
لا کلرکوں نے لکھا ہے کہ اس وقت عدلیہ کی آزادی اور سنہ 1973 کے آئین پر جس طرح کے حملے ہو رہے ہیں ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی۔
لا کلرکس کون ہوتے ہیں؟
قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لا کلرکس سپریم کورٹ میں ایک سال کے لیے بطور انٹرنی کام کرتے ہیں جہاں وہ مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے سے ججوں کے ریسرچ ورک میں معاونت فراہم کرتے ہیں اور اس کے عوض انہیں معاوضہ دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: جسٹس منصور علی شاہ آج سپریم کورٹ کیوں نہ آئے؟
سپریم کورٹ خوفناک حملوں کی زد میں، مجوزہ آئینی ترمیم سب سے بڑا خطرہ
لا کلرکس نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ خوفناک حملوں کی زد میں ہے اور باضابطہ طریقہ کار سے اس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
الیکشن کمیشن سپریم کورٹ احکامات سے روگردانی کر رہا ہے، انتہائی عجلت میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈینینس جاری کیا جاتا ہے اور سب سے تشویشناک مجوزہ آئینی ترمیم ہے۔
لا کلرکس عدلیہ کی تقسیم سے پریشان
لا کلرکس نے اپنے خط میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل جج صاحبان سے اپیل کی ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے اصولوں کی خاطر عدالتی مشاورت اور اتفاق رائے کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے فی الفور فل کورٹ اجلاس بلائیں تاکہ آنے والے دنوں میں آئینی ترامیم سے متعلق چیلنجوں کے ساتھ متحد ہو کر خوش اسلوبی سے نمٹ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گو کہ آئینی ترمیم ابھی منظور نہیں ہوئی لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ جب یہ ہو جائے گی تو تمام جج صاحبان اپنے حلف کا احترام کرتے ہوئے آئین کی حفاظت کریں گے اور اس کی خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔ تمام لا کلرکس عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے ثمرات ضائع کر دیے
مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے تشریح کیس: جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک اور خط لکھ دیا
لا کلرکس نے لکھا ہے کہ فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی منظوری دی، جس میں اختیارات کو چیف جسٹس کی بجائے 3 سینیئر ججز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ لیکن حال ہی میں جاری ہونے والے آرڈیننس کے ذریعے پھر سے چیف جسٹس کو سارے اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں اور چیف جسٹس فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
لا کلرکوں نے آرٹیکل 63 اے پر نظرثانی فیصلے کو عجلت میں دیا گیا فیصلہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے ووٹوں کی خریداری ممکن ہو جائے گی۔