پاکستان تحریک انصاف نے 4 اکتوبر کو اسلام اباد کے بھی چوک میں احتجاج کا اعلان کیا تھا جس کے لے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی قیادت میں ایک بڑا قافلہ اسلام اباد کے لیے روانہ ہوا تاہم وہ 4 اکتوبر کی بجائے 5 اکتوبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا 9 مئی جیسے واقعہ کا منصوبہ تھا، وفاقی وزیر امیر مقام
احتجاج کرنے والوں اور پولیس کی مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئیں جن میں 106 پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ پولیس کی جانب سے مجموعی طور پر 878 کارکنان کو گرفتار کیا گیا جن میں 120 افغان باشندے، خیبر پختونخوا پولیس کے 7 اہلکار اور کچھ ریٹائرڈ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف ریاست کے خلاف بغاوت، دہشت گردی اور اقدام قتل کی سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
تھانہ ٹیکسلا میں بانی پی ٹی آئی سمیت 300 افراد پر دہشتگردی و دیگر سخت ترین دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا اور متعدد کارکنان سمیت پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا۔
علاوہ ازیں عمران خان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو بھی اسلام آباد کے بلیو ایریا سے گرفتار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: پی ٹی آئی مظاہرین سے برآمد اسلحہ کی فوٹیج جاری، علی امین گنڈاپور کی ایک اور سی سی ٹی وی ویڈیو سامنے آگئی
آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے گزشتہ روز میڈیا کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کے دوران پولیس پر پتھراؤ کرنے اور دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر 878 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 120 افغان باشندے بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ احتجاج کے دوران 441 سیف سٹی کیمروں کا نقصان کیا گیا ہے جن کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔ پولیس جوانوں کی 31 موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا جبکہ 3 نجی
گاڑیوں کو بھی تباہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی احتجاج، شیر افضل مروت کہاں تھے؟
ترجمان اسلام اباد پولیس کے مطابق پی ٹی آئی کے گرفتار 878 کارکان کو شناخت پریڈ کے لیے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔