قومی سلامتی کمیٹی کا اہم ترین اجلاس وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں شروع ہوا تو آرمی چیف سے ڈی جی آئی ایس آئی تک اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی سے وزیر خارجہ تک وہ تمام اہم ترین عہدیدار موجود تھے جن کی ذہانت اور پالیسی سازی پر اس بد نصیب ملک کی تقدیر کا دار و مدار ہے۔ سو مجھ جیسے کروڑوں دل فگار اور سوختہ جاں پاکستانیوں کی نگاہیں اسی اجلاس پر مرکوز تھیں، کیونکہ ماضی قریب میں ایک تباہ کن ’آندھی‘ نہ صرف اس ملک کے معاشی در و بام اجاڑ چکی بلکہ اس آندھی نے دہشت گردی کے اس عفریت میں پھر سے وہ جان ڈال دی جس نے پورے پاکستان خصوصاً میرے صوبے خیبر پختونخوا کے در و دیوار خون آلودہ کر دیے ہیں۔
سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں طے پایا کہ ملک دشمنوں کے مذموم عزائم ناکام بنا دیے جائیں گے۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیسے؟ کیا ان زہریلے کرداروں کو بائیس کروڑ عوام کے سامنے مکمل طور پر بے نقاب کیا جائے گا؟ کیا انہیں اس عدالتی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا جس پر کسی ’واٹس ایپ‘ کا سایہ اور کسی ’کرش‘ کی جادوگری نہ ہو؟
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ ’نرم رویہ‘ اور عدم سوچ بچار کی بنیاد پر کیے گئے فیصلوں نے پھر سے دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس حوالے سے بحیثیت ایک پختون اور پاکستانی میرا بلکہ ہر پاکستانی کا یہ حق بنتا ہے کہ ہمارے ان سوالات کے جوابات بھی دیے جائیں اور مجرموں کی حیثیت و پس منظر سے بالاتر ہمارے تمام شہداء (مع فوج پولیس اور سویلینز ) کے خون نا حق کا حساب بلکہ قصاص بھی لیا جائے۔
ہمیں بتایا جائے کہ اپنے مفادات اور مقاصد کے لیے یہ فیصلے کس نے کیے تھے؟ طالبان نے 100 خطرناک دہشت گردوں کی لسٹ کس طاقتور شخصیت کو تھمائی اور پھر یہ تمام دہشت گرد رہا بھی کر دیے گئے۔
سوات کے دو اہم طالبان کمانڈر محمود خان اور مسلم خان (جو تحریک طالبان کے ترجمان بھی تھے ) کس کے حکم پر رہا ہو کر افغانستان چلے گئے؟
افغان بارڈر پر بتیس چوکیوں کی تعداد اچانک کم کر کے پندرہ کر دی گئی۔ یہ حکم کس نے دیا تھا اور اس کے پس پردہ مقاصد کیا تھے ؟
کابل کے سرینا ہوٹل میں چائے کا کپ اٹھائے ’آل اِز او کے‘ کہنے والا کیا چند دن بعد سوات میں طالبان کی دوبارہ آمد سے بے خبر تھا؟
طالبان کمانڈرز کی آڈیو سے یہ بات پوری طرح عیاں تھی کہ دہشت گردوں کے ساتھ معاملات ’فرینڈلی‘ رہیں گے۔ یہ بات بھی واضح تھی کہ طالبان کو فی الحال نئے فاٹا اضلاع میں رہنے دیا جائے گا اور پھر انہیں باقی پاکستان میں جانے کی اجازت بھی دی جائے گی۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ عام انتخابات کے موقع پر ایک جماعت کے علاوہ باقی سیاسی جماعتوں پر زمین تنگ کر دی جائے گی اور انہیں لیول پلینگ فیلڈ سے محروم کر دیا جائے گا؟
کیا اس ملک کے سربراہ نے طالبان کو دفتر کھولنے کی آفر نہیں کی تھی؟ کیا دہشت گردوں نے صرف پی ٹی آئی مخالف جماعتوں بالخصوص اے این پی کو ٹارگٹ نہیں کیا؟
اگر سوالات کا سلسلہ دراز ہو تو دہشت گردوں کا ہر سہولت کار سامنے دکھائی دے گا۔ لیکن یہ کام ملکی اداروں اور اس سے وابستہ تمام ذمہ داران کا ہے کہ وہ تمام معاملات کی نہ صرف مکمل چھان بین کریں بلکہ ’مذموم عزائم ناکام بنانے‘ کے روایتی لیکن بے ثمر جملے کو اب کی بار وہ عملی شکل عطا کریں کہ آئندہ کوئی اپنے ذاتی مفادات کو اس ملک کی سلامتی اور استحکام پر ترجیح دینے کے بارے سوچ بھی نہ سکے۔
سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شامل شرکا یا ان کے اداروں پر بعض اوقات ہم تنقید بھی کرتے ہیں، ان سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور گاہے ان کی پالیسیوں کو بھی نشانے پر لیتے ہیں لیکن ماننا پڑے گا کہ نہ تو موجودہ وزیراعظم اپنے پیش رو کی مانند حد درجہ غیر ذمہ دار اور لا پروا ہیں نہ ہی جنرل عاصم منیر اپنے سے پہلے ہو گزرے جنرل باجوہ کی طرح سیاست میں الجھے ہیں اور نہ ہی آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ، فیض حمید کی ان ’روایتوں‘ کو لےکر چل رہے ہیں جس نے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔
سو ایک عہد ستم کیش سے گزرے بلکہ گزارے گئے بائیس کروڑ پاکستانی ایک حسرت اور امید کے ساتھ نگاہیں اس سلامتی کمیٹی کے فیصلوں اور کردار پر مرکوز کے ہوئے ہیں جن کے دامن پر کم از کم وہ داغ نہیں جو ان کے پیش روؤں کے دامن پر ہیں اور جن سے بالآخر اس بد نصیب ملک کو چھٹکارا تو مل ہی گیا لیکن اس حالت میں کہ ۔۔۔ ’آل از ناٹ او کے‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔