میثاق جمہوریت راست فیصلہ تھا اسے آگے بڑھائیں گے، نواز شریف اور بلاول بھٹو کا عزم

جمعرات 10 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نوازشریف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے سنہ 2006 میں دونوں پارٹیوں کے درمیان کیے گئے میثاق جمہوریت کو راست اور پرتاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے اسے مزید آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔

محمد نوازشریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان بدھ کو پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں مہنگائی کی شرح 32 سے 6.9 فی صد ہونے، پالیسی ریٹ میں کمی اور معاشی بہتری پر اطمینان کا اظہار کیا اور ساتھ ہی سعودی سرمایہ کار وفد کی آمد اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے انعقاد کا بھی خیرمقدم کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’14 مئی میثاق جمہوریت‘ : یہ تاریخ ساز دن ہے، بلاول بھٹو

دونوں قائدین نے کہا کہ عوام کو ریلیف کی فراہمی کی رفتار بڑھنا خوش آئند اور نیک فال ہے اور اسی سی او اجلاس سمیت دیگر سرگرمیاں پاکستان کے عالمی وقار اور معاشی بہتری کے لیے نہایت مثبت پیش رفت ہے۔

اس موقعے پر نواز شریف نے کہا کہ وقت نے ثابت کیا کہ سنہ 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا ہمارادرست سمت اور درست وقت پرتاریخی فیصلہ تھا اور جس سے ملک میں جمہوریت کو استحکام ملا اور پارلیمنٹ نے بھی اپنی مدت پوری کرنی شروع کی۔

قائد ن لیگ نے کہا کہ میثاق جمہوریت کے نتیجے میں دھرنے، انتشار خلفشار اور یلغار کی سیاست کرنے والی غیرجمہوری قوتوں کا تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر مقابلہ کیا۔

مزید پڑھیے: مسلم لیگ ن سے کوئی اختلاف نہیں، میثاق جمہوریت کو آگے بڑھائیں گے: بلاول بھٹو زرداری

ان کا کہنا تھا کہ سب جمہوری قوتوں کو مل کر پارلیمنٹ کے ذریعے عدل کا نظام وضع کرنا ہے جس میں کسی فرد کی بالادستی نہ ہو بلکہ عوام کی رائے اور اداروں کا احترام ہو۔

نواز شریف نے کہا کہ کسی ایک شخص کو وہ قوت اور اختیار حاصل نہیں ہونی چاہیے کہ جس سے وہ اچھے بھلے جمہوری نظام کو جب چاہے پٹڑی سے اتار دے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فرد واحد ملک وقوم کو سیاہ اندھیروں کے سپرد کردے۔

انہوں نے کہا کہ آج حاصل ہونے والی معاشی کامیابیوں کی بنیاد بھی سیاسی اتحاد واتفاق ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ میثاق جمہوریت میں خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ تمام قوتیں مل کر پاکستان کو معاشی سیاسی استحکام دیں جس کے نتیجے میں پاکستان خوش حال ہو۔

مزید پڑھیں: دعا کریں آئینی ترامیم جلد ہوجائیں، نواز شریف کا صحافی کے سوال پر جواب

بلاول بھٹو کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور آپ (نواز شریف) نے میثاق جمہوریت کی شکل میں ملک کو آگے بڑھانے کا تاریخی قدم اٹھایا اور اس سفر کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اس پر نواز شریف نے کہا کہ سیاسی رواداری، اخلاق، آئین و قانون اور پارلیمان کی بالا دستی کے لیے ہم (ن لیگ، پی پی و دیگر ہم خیال سیاسی جماعتیں) ایک ہیں۔

آپ کے سیاسی وژن کی قدر کرتا ہوں، نواز شریف

نواز شریف نے بھی پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والی 18ویں ترمیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اداروں کو مضبوط کیا تھا۔ انہوں نے بلاول بھٹو کے سیاسی کردار کو سراہتے ہوئے جوان سیاستدان کو شاباش بھی دی۔

قائد ن لیگ نے مرحومہ بینظیر بھٹو کے صاحبزادے سے یہ بھی کہا کہ ’میں آپ کے سیاسی اثاثے، وژن، سوچ اور تجربے کی بہت قدر کرتا ہوں اور آپ کی ان خوبیوں کی ملک اور قوم کو ضرورت ہے‘۔

آئینی ترمیم کے حوالے سے تبادلہ خیال

ملاقات کے دوران بلاول بھٹو نے آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات کی ترامیم سے متعلق تجاویز سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’میری خواہش ہے کہ آئینی ترامیم سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے منظور ہوں‘۔

مزید پڑھیں: آئینی ترمیم، فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کے تحفظات دور کردیے، مشترکہ مسودہ تیار کرنے پر اتفاق

اس پر نواز شریف نے چیئرمین پی پی کو یقین دہانی کرائی کہ ن لیگ ملک کی بہتری کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کی ہر تجویز کے ساتھ کھڑی ہے۔

نواز شریف اور بلاول بھٹو کے درمیان ملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے ملک کی سیاسی جماعتوں کے مشترکہ مقاصد ہونے پر بھی اتفاق ہوا۔

نواز شریف سے ملاقات کے لیے آئے بلاول بھٹو کے ہمراہ آنے والوں میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، رضا ربانی، پیپلز پارٹی کی نائب صدر شیری رحمان، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر اور مرتضیٰ وہاب بھی شامل تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال، راناثناءاللہ، مریم اورنگزیب، پرویز رشید اور سینیٹر عرفان صدیقی بھی اس موقعے پر موجود تھے۔

یاد رہے کہ بلاول بھٹو آئینی ترمیم سے متعلق اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے سیاسی قائدین سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور ان کی سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

آئینی ترمیم کی منظوری 25 اکتوبر تک متوقع ہے، بلاول بھٹو

گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کے لیے حکومت کے پاس ضمیر پر ووٹ لینے کا آپشن موجود ہے لیکن اس کے باوجود اتفاق رائے چاہتے ہیں۔
انہوں نے 25 اکتوبر تک آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ترمیم اس کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ستمبر میں آئینی ترمیم پاس کرانے کی کوشش کی گئی تاہم نمبر پورے نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے ترمیم کو مؤخر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ دوبارہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کرکے ترمیم منظور کروالی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیے: عدالتی نظام درست کرنے کے لیے آئینی ترمیم  وقت کی ضرورت ہے، بلاول بھٹو

دریں اثنا آئینی ترمیم کے معاملے پر جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان انتہائی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ سینیٹ میں ترمیم پاس کروانے کے لیے حکومت کے پاس 5 ووٹ کم ہیں اور مولانا فضل الرحمان کے ارکان کی تعداد بھی 5 ہی ہے۔

اس حوالے سے جے یو آئی کے رہنما کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ ایک سے 2 روز میں جے یو آئی کا آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آجائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp