انگلینڈ کرکٹ ٹیم کی پاکستانی امپائروں سے ناراضی کی روایت خاصی پرانی ہے۔ سنہ 1956 میں ایم سی سی (اے ) کے ’مہذب‘ کھلاڑیوں نے پشاور میں ادریس بیگ کو اغوا کرکے ان کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔ سنہ 1987 میں فیصل آباد ٹیسٹ میں انگلینڈ کے کپتان مائیک گیٹنگ اور امپائر شکور رانا کی لڑائی کرکٹ کی بدنامی کا باعث بنی۔
ان 2 واقعات کے بارے میں اردو اور انگریزی میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ جب بھی دونوں ٹیموں کا ٹاکرا ہو ان واقعات کی راکھ کریدی جاتی ہے لیکن دوسری طرف انگلینڈ کے امپائروں کے بارے میں کم ہی بات ہوتی ہے لہٰذا آج اس پہلو پر بات کر کے ہم تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان نے سنہ 1954 میں انگلینڈ کے اپنے پہلے دورے میں اوول ٹیسٹ جیت کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ اس کے بعد قومی ٹیم 28 سال انگلینڈ میں ٹیسٹ میں کامیابی کو ترستی رہی۔ پھر سنہ 1982 میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے لارڈز ٹیسٹ جیت کر نئے سفر کا آغاز کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ریٹائرمنٹ اور توسیع کے درمیان جھولتی عدالتی تاریخ
یہ سیریز کا دوسرا میچ تھا۔ پہلا ٹیسٹ میزبان ٹیم کے نام رہا تھا۔ اس لیے اب سب کی نظریں لیڈز میں تیسرے اور آخری ٹیسٹ پر تھیں۔ پاکستان یہ میچ جیت کر انگلینڈ میں پہلی بار ٹیسٹ سیریز میں فتح حاصل کرسکتا تھا لیکن انگلینڈ نے اسے 3 وکٹوں سے چت کردیا۔ میزبان ٹیم کی جیت میں امپائر ڈیوڈ کونسٹنٹ کا کردار بھی خوب رہا۔
پاکستان نے پہلی اننگز میں 275 رنز بنائے جس کے جواب میں انگلینڈ کی ٹیم 256 رنز پر آؤٹ ہو گئی۔ ڈیوڈ گاور نے سب سے زیادہ 74 رنز جوڑے۔ اننگز کی ابتدا میں عبدالقادر کی گیند ان کے بلے سے چھو کر وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں محفوظ ہو گئی لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
ادھر پاکستانی کھلاڑیوں کی پرزور اپیل پر امپائر کونسٹنٹ نے انگلی کھڑی نہیں کی۔ اس ’روندی‘ پر قادر بڑے غضب ناک ہوئے۔ باقی کھلاڑیوں کو بھی تاؤ آیا۔ گاور کے آؤٹ ہونے سے پاکستان کی میچ پر گرفت مضبوط ہو جاتی اور 19 کے بجائے اسے زیادہ رنز کی برتری ملنے کا امکان پیدا ہو جاتا۔
ڈیوڈ گاور نے اپنی آپ بیتی میں یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ آؤٹ تھے لیکن کپتان باب ولس کی ہدایت تھی کہ امپائر آؤٹ نہ دے تو وکٹ چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ گاور نے وکٹ کیپر وسیم باری کے شدید ردعمل پر بھی بات کی ہے جنہوں نے انہیں سخت سست کہا تھا۔ گاور نے گیٹنگ سے معذرت طلب کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ انہیں جس ایک سیریز میں پاکستانی امپائروں سے واسطہ پڑا اس میں ان کی امپائرنگ بہت زیادہ خراب تو نہیں تھی۔
مزید پڑھیے: شاعروں، ادیبوں کی پتھریاں اور درد کا سنگِ گراں
پاکستان کی دوسری اننگز میں کونسٹنٹ نے مہمان ٹیم کو پہلے سے زیادہ برافروختہ کیا۔ میچ کے اہم موڑ پر انہوں نے سکندر بخت کو غلط کیچ آؤٹ دے دیا حالاں کہ گیند بلے سے ٹچ نہیں ہوئی تھی۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم اپنی کتاب ’اقبال قاسم اور کرکٹ‘ میں لکھتے ہیں:
’سکندر بخت کو امپائر نے غلط آؤٹ دیا۔ بار بار ایکشن ری پلے سے یہ ثابت ہو گیا کہ گیند سکندر کے پیڈز پر لگی ہے۔ بلا بہت دور تھا لیکن امپائر نے ان کو کیچ آؤٹ دیا۔ اس بے ایمانی پر انگلینڈ کے اخبارات نے بھی کافی نکتہ چینی کی تھی اور سکندر کی تصاویر شائع کی گئی تھیں۔‘
کرکٹ کے نامور لکھاری مارٹن ولیم سن نے کرکٹ انفو پر ایک مضمون میں امپائروں کے 11 ایسے فیصلوں کے بارے میں لکھا تھا جو ان کی دانست میں Horribly wrong تھے۔ غلط فیصلوں کی اس ’الیون‘ میں سب سے اوپر ڈیوڈ کونسٹنٹ کے سکندر بخت کو آؤٹ دینے کا فیصلہ ہے جس کے لیے انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے مشترکہ طور پر زور دار اپیل کی تھی۔
وہ ’دیانت دار‘ فیلڈر جس نے پیڈ پر گیند لگنے پر کیچ کا دعویٰ کیا تھا کہ وہ کوئی اور نہیں جناب مائیک گیٹنگ تھے۔
میچ کے بعد انٹرویو میں عمران خان نے کونسٹنٹ کی امپائرنگ پر تنقید کی جن کے غلط فیصلے پاکستان کو بڑے مہنگے پڑے تھے۔
عمران خان نے اپنی کتاب ’آل راؤنڈ ویو‘ میں سیریز کے پہلے ٹیسٹ میں بوتھم کی گیند پر مدثر نذر کو ایل بی ڈبلیو دینے کے فیصلے کو بھی بہت خراب فیصلہ گردانا ہے۔ پاکستان کے مینیجر انتخاب عالم کو اس ٹیسٹ میں امپائروں کے 6 فیصلوں پر اعتراض تھا۔
مزید پڑھیں: عدلیہ کی ’اصلاح‘ میں عجلت اور ماضی کے چند سبق
کونسٹنٹ سے پاکستان ٹیم ہی نہیں انڈین ٹیم بھی شاکی تھی لہٰذا اس نے سنہ 1982 کے دورہ انگلینڈ میں انہیں ٹیسٹ سیریز میں امپائر کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن سنہ 1987 میں پاکستان کے دورہ انگلینڈ میں مہمان ٹیم کے احتجاج کے باوجود ان سے 2 ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کرائی گئی۔ پاکستانی مینجر حسیب احسن نے انہیں ’اے ڈس گریس فل پرسن‘ قرار دیا۔
سنہ1992 کے ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان سے شکست انگلینڈ کے لیے ناقابلِ برداشت تھی اور اب وہ اس کا ہر قیمت پر بدلہ لینے کا عزم باندھے بیٹھے تھے۔ پاکستان کو اس دورے میں انگلینڈ کے کھلاڑیوں ہی نہیں میڈیا سے بھی برسر پیکار ہونا تھا جو پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرنے میں ہر حد پار کر رہا تھا۔ اوپر سے امپائر بھی اپنی ٹیم کے ساتھ رلے ہوئے تھے۔
معروف رائٹر پیٹر اوبورن کے مطابق امپائر رائے پالمر نے خاندانی روایت کے مطابق پاکستانی کھلاڑیوں کو ناراض کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سنہ 1987 کی سیریز میں پاکستان نے رائے پالمر کے بھائی کین پالمر سے ناخوش ہو کر اس کی امپائرنگ پینل میں شمولیت پر اعتراض کیا تھا کیونکہ پاکستان سنہ 1982 میں اس کی امپائرنگ سے ڈسا ہوا تھا۔
مانچیسٹر ٹیسٹ میں انگلینڈ کے کھلاڑیوں کی نیم دلی سے کی گئی اپیل پر رمیز راجہ کو آؤٹ قرار دینے پر پاکستان ٹیم رائے پالمر کے خلاف بھری بیٹھی تھی۔ آخری نمبر کے بلے باز ڈیون میلکم کو باؤنسر کرنے پر عاقب جاوید کو وارننگ دینے سے ایک نیا کھٹ راگ شروع ہو گیا۔
عاقب کی امپائر سے تو تو میں میں ہوئی جس کے بعد کپتان جاوید میانداد سے بھی امپائر کی تلخ کلامی ہوئی۔ اوور کے اختتام پر جس رعونت سے امپائر نے عاقب جاوید کو سویٹر واپس کیا اسے پاکستانی مینیجر انتخاب عالم نے توہین آمیز قرار دیا۔
اس کے بعد لیڈز ٹیسٹ میں رائے پالمر کی جگہ ان کے بھائی کین پالمر نے لے لی۔ ایک سیر تو دوسرا سوا سیر۔ وہ اور ان کے ساتھی امپائر مرون کچن ایل بی ڈبلیو کی جائز اپیلیں مسترد کرتے رہے لیکن ایک متنازع فیصلہ جو پالمر کے کیریئر پر دھبا ہے وہ انگلینڈ کے کپتان گراہم گوچ کو رن آؤٹ دینے سے انکار تھا۔ اس واقعے کا حوالہ کرک انفو پر کین پالمر کے تعارف میں شامل ہے اور پیٹر اوبورن کی کتاب ’وونڈیڈ ٹائیگر‘ میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔
وسیم اکرم نے اپنی آپ بیتی میں بتایا ہے کہ ابتدائی وکٹیں جلد گرنے کے بعد جیت کا امکان پیدا ہو گیا تھا ۔ گوچ 13 کے اسکور پر رن آؤٹ ہوئے تو ہم بہت پرجوش تھے لیکن امپائر نے آؤٹ ہی نہیں دیا۔
وسیم اکرم نے لکھا کہ یہ سب ہمارے لیے بہت حیران کن تھا اور اس کے بعد بھی ہمارے خلاف فیصلوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 2 موقعوں پر ڈیوڈ گاور کو صاف آؤٹ ہونے پر بھی پویلین کی راہ نہیں دکھائی گئی۔
انگلینڈ نے امپائروں کی مدد سے لیڈز ٹیسٹ جیت کر سیریز ایک ایک سے برابر کر لی لیکن اوول میں 5ویں ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے اسے 10 وکٹوں سے ہرا کر انگلینڈ میں مسلسل دوسری ٹیسٹ سیریز جیت لی۔
ادریس بیگ کی تضحیک کا معاملہ ہو یا سنہ 1992 کے دورے میں پاکستان ٹیم سے معاندانہ سلوک اس کی جڑیں شکست کے بعد اس کا ہر قیمت پر بدلہ لینے کی نفسیات میں پوشیدہ ہیں۔ فضل محمود نے ’فرام ڈسک ٹو ڈان‘ میں لکھا ہے کہ ایم سی سی کے کپتان ڈونلڈ کار نے پاکستان پہنچ کر یہ بیان دیا تھا کہ اوول کی شکست کا بدلہ لیے بغیر وہ اپنی سرزمین پر قدم نہیں رکھیں گے۔ سنہ 1992 میں بھی انگلینڈ پر بدلے کی ایسی ہی سوچ حاوی رہی جس سے تنازعات نے جنم لیا۔ اگر آپ میں سپورٹس مین اسپرٹ نہ ہو تو شکست کے بعد ایک اور شکست آپ کو اس توازن سے محروم کر دیتی ہے جو مجموعی اور انفرادی سطح پر باوقار ہونے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: سرسید کے زندہ دلان لاہور
اس میں شک نہیں کہ پاکستانی امپائروں نے بھی غلطیاں کیں، کمزور اور متنازع فیصلے دیے، اپنی ٹیم کو فیور دیتے رہے لیکن عمران خان کے کپتان بننے کے بعد ہمیں اس لیے اخلاقی برتری حاصل ہوئی کہ وہ مسلسل نیوٹرل امپائروں کے لیے آواز بلند کرتے رہے اور اس سلسلے میں اس حد تک گئے کہ ویسٹ انڈیز اور انڈیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں نیوٹرل امپائروں کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو راضی کیا جبکہ انگلینڈ میں کرکٹ کے اونچی ناک والے کرتا دھرتا یہ بات ماننے سے گریزاں رہے جس کی وجہ عمران خان کے نزدیک نو آبادیاتی گھمنڈ تھا جو اپنے امپائروں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہل اور انصاف پسند بتاتا تھا۔ لیکن آخر کب تک عمران خان کے اصولی مؤقف کی نفی ہوتی۔ آخر ایک دن بعد از خرابی بسیار دنیائے کرکٹ کو نیوٹرل امپائرنگ کی طرف جانا پڑا جس سے کرکٹ بہت حد تک تنازعات سے پاک ہو گئی اور شفافیت کا یہ رستہ رفتہ رفتہ کشادہ ہوتا چلا گیا اور بات اب ڈی آر ایس تک آپہنچی۔