آئینی ترمیم: جے یو آئی کا حکومت کا ساتھ دینے سے انکار، مجوزہ ڈرافٹ خصوصی کمیٹی میں پیش

ہفتہ 12 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جمیعت علما اسلام (جے یو آئی) نے مجوزہ ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا، جمیعت علما اسلام نے آئینی ترمیم کے لیے حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کردیا، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مشترکہ ڈرافٹ پر اگلا اجلاس زرداری ہاؤس میں ہوگا۔

پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کی زیر صدارت 26ویں آئینی ترامیم کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کی طرف سے بیرسٹر گوہر، علی ظفر، اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب شریک ہوئے جبکہ اسد قیصر نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔

اس کے علاوہ اجلاس میں فاروق ستار، امین الحق، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، شیری رحمان، اعجاز الحق، اعظم نذیر تارڑ اور عرفان صدیقی سمیت دیگر سیاسی شخصیات شریک ہوئیں۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور چیئرمین پی پی بلاول بھٹوزرداری آج کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ہمارے ڈرافٹ میں صرف آئینی عدالت اور کمیشن کا فرق ہے، پیپلز پارٹی کے باقی ڈرافٹ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، امید ہے جلد دونوں جماعتیں مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کر لیں گے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جے یو آئی اور حکومت کے ڈرافٹ کی کاپی مل گئی ہے، ان ڈرافٹس پر غور کریں گے، ہماری پارٹی نے اگلا اجلاس 17 اکتوبر کے بعد بلانے کا کہا ہے۔

عمر ایوب نے کہا کہ یہ ترمیم حکومت کی جانب سے عدلیہ پر ڈرون حملہ ہے، مسودہ ان کے پاس کوئی نہیں ہے، وہ کہیں چھپ رہا ہو گا۔

مزید پڑھیں: حکومت نے آئینی ترمیم کے لیے ہماری تجاویز قبول کیں تو مناسب مسودے پر اتفاق ہوجائے گا، مولانا فضل الرحمان

اجلاس شروع ہونے سے پہلے میڈیا سے گفتگو کے دوران خورشید شاہ نے کہا کہ ہر پارٹی کا حق ہے وہ کس سے بات کرنا چاہتے ہیں، جے یو آئی نے ہمیں تو آئینی ترمیمی مسودہ پر تحفظات کا ابھی تک نہیں کہا، جب وہ کہیں گے تو دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم ایک مشترکہ ڈرافٹ دیں گے۔ وہ ہمارے ساتھ اور ہم ان کے ساتھ اپنا اپنا ڈرافٹ شیئر کریں گے۔

اجلاس کے دوران پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے ارکان نے پی ٹی آئی کے 15 تاریخ کے احتجاج کے اعلان پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ کیسے ہوسکتا ہے ایک طرف ترمیم کے لیے اتفاق رائے پیدا کریں اور دوسری طرف انتشاری سیاست کریں۔

اس پر عمر ایوب نے کہا کہ احتجاج کرنا ہمارا آئینی حق ہے، حکومت نے فسطائیت کی انتہا کردی ہے اور ہمارے کارکنوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے، پی ٹی آئی کسی منفی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔

وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ گفت و شنید سے معاملات حل ہوتے ہیں، آئین کے فریم ورک میں مذاکرات ایک ماہ سے چل رہے ہیں۔ کوئی ایسی چیز نہیں جس کا حل نہ ہو۔ صرف تنقید سے معاملات حل نہیں ہوں گے، کوئی تجویز بھی دیں۔

یہ بھی پڑھیں: فرد واحد کے پاس سب اختیارات مسائل کی وجہ ہیں، سب اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں، بلاول بھٹو

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ ہم اپنے ساتھ کوئی مسودہ نہیں لے کر آئے لیکن ہم دیکھیں گے کہ یہ لوگ آج کیا کہتے ہیں اور کیا چیز شیئر کرتے ہیں۔

رہنما ایم کیو ایم فاروق ستار نے کہا کہ ہم نے آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں دیکھا، حکومتی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کے لیے وکالت کر رہی ہیں، پی ٹی آئی اس آئینی ترمیم کی مخالفت کر رہی ہے، یہ جماعتیں اپنی ضرورت کے تحت کسی بھی اصلاحاتی ایجنڈا کی حمایت یا مخالفت کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی اگر حکومت میں ہوتی تو اس کی ضرورت بھی اسی طرح کے بل کی ہوتی۔

فاروق ستار نے کہا کہ پی ٹی آئی عدالتی اصلاحات، آئینی عدالت کے حق میں تھی، پی ٹی آئی نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں اس کو سپورٹ کیا تھا۔ آج وہ اس لیے مخالفت کر رہے ہیں کہ ان کے سیاسی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے، اصول چلے گئے ہیں ساری بات سیاسی مفادات کی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں پیپلز پارٹی نے اپنا مسودہ پیش کیا۔ مسودے میں وفاق اور صوبوں میں آئینی عدالتوں کے قیام اور ججز کے تقرر کے لیے آئینی کمیشن بنانے کی تجویزدی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp