گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی نوجوانوں میں بیرون ممالک جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک کا رخ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز امپلائمنٹ کے مطابق رواں برس بھی ستمبر تک 5 لاکھ 25 ہزار 378 پاکستانی بیرون ممالک جا چکے ہیں۔
پاکستانی نوجوان ملک چھوڑنا چاہتے ہیں
صرف یہی نہیں بلکہ تقریباً ہر دوسرا پاکستانی نوجوان بہتر مستقبل اور اچھی تنخواہ کے لیے ملک دوسرے ممالک کا رخ کرنا چاہتا ہے۔ اس چیز کا اندازہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک تحقیق سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس کے مطابق 62 فیصد پاکستانی نوجوان بہتر تنخواہ کے لیے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
پاکستان اکنامک سروے 2023 تا 2024 کے مطابق پاکستان میں 15 سے 24 سال کے 45 لاکھ نوجوان روزگار سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی روزگار اور بہتر انکم کے لیے دوسرے ممالک جانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:متحدہ عرب امارات: وزٹ ویزا ہولڈرز کو ملازمت فراہم کرنیوالی کمپنیوں کیخلاف کریک ڈاؤن
آئیے ہم آپ کو ان چند ممالک کے بارے میں بتاتے ہیں، جو پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے اچھی تنخواہیں آفر کرتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات:
متحدہ عرب امارات تیل اور گیس کے ذخائر کی وجہ سے بہت امیر ملک ہے۔ یہاں تعمیراتی، سروسز اور آئل اینڈ گیس سیکٹر میں بہت سے ملازمت کے مواقع موجود ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں مینیجرز، انجینئرز، سرجنز، پروفیسر، فارمسسٹ، ہیومن ریسورس مینیجرز اور وہ تمام افراد جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بلکہ وہ اپنے شعبے میں نہ صرف تجربہ رکھتے ہیں بلکہ ماہر ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے یو اے ای میں تنخواہ کی تقریباً 12000 درہم 1500 ہزار درہم تک ہوتی ہے۔ یعنی پاکستانی تقریبا 9 لاکھ 7 ہزار سے 11 لاکھ 34 ہزار روپے تک تنخواہ بنتی ہے۔
اس کے علاوہ آٹو مکینیک ، ٹیلی کام ٹیکنیشن، مشین آپریٹر اور دیگر افراد جو اتنے پڑھے لکھے تو نہیں ہیں، مگر وہ اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایسے افراد کو یو اے ای تقریبا 5 ہزار سے 8 ہزار درہم تک تنخواہیں دیتا ہے۔ جو پاکستانی تقریبا 3 لاکھ 77 ہزار سے 6 لاکھ تک بنتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں ملازمت کے خواہشمند کن باتوں کا خیال رکھیں؟
سیلز ایگزیکٹیو، ریسیپشنسٹ، سائٹ سپر وائزر، کیشیئر، کلرک، اسٹور کیپر، ٹکٹنگ کلرک، کسٹم کلیئرنگ کلرک وغیرہ کی تنخواہیں تقریباً 4 ہزار سے 5 ہزار درہم ہوتی ہے۔ جو پاکستانی 3 لاکھ سے تقریبا 4 لاکھ تک بنتے ہیں۔
یو اے ای میں اس وقت کونسی نوکریوں کی ڈیمانڈ ہے؟
یو اے ای میں اس وقت مختلف شعبوں میں نوکریوں کی ڈیمانڈ ہے۔ جس میں سیکیورٹی گارڈز، میڈیکل ٹیکنیشن( اے سی ٹیکنیشن، الیکٹرک ٹیکنیشن وغیرہ)گرافک ڈیزائنگ، ویب ڈولپمنٹ، سوشل میڈیا مینیجرز، سول انجینیئرز، نرسز، ڈاکٹرز، ہوٹل مینجرز، ٹیکسی ڈرائیورز، سیلز ایگزیکٹیو، فنانس، سپلائی چین مینجمنٹ وغیرہ کی نوکریاں شامل ہیں۔
قطر:
قطر بھی ایک امیر عرب ملک ہے اور یہاں فٹبال ورلڈ کپ 2022 کے بعد سے تعمیراتی اور سروسز سیکٹر میں ملازمت کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وہ یورپی ملک جہاں ملازمتیں بھی بیشمار اور ویزا لینا بھی آسان
قطر میں ڈاکٹرز اور دیگر میڈیکل فیلڈ کی سیلری تقریباً 12 ہزار قطری ریال سے 20 ہزار قطری ریال تک ہے۔ جو پاکستانی تقریباً 9 لاکھ سے 15 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ تجربہ کار انجینئرز جس کے پاس قطری کچھ سرٹیفیکشن بھی موجود ہو، تو اس طرح کے افراد کو یہاں 2500 قطری ریال سے 3500 قطری ریال تک تنخواہ مل سکتی ہے جو تقریباً 19 لاکھ سے 26 لاکھ پاکستانی روپے بنتے ہیں۔
اسی طرح ٹیچر کی تنخواہ قطر میں تقریباً 4 ہزار قطری ریال سے 8 ہزار قطری ریال تک ہوتی ہے۔ جس کے ساتھ بہت سے اسکول میڈیکل، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔ یعنی یہ تنخواہ پاکستانی روپوں میں تقریباً 3 سے 6 لاکھ روپے بنتی ہے۔
قطر میں ہوم ٹیکسی ڈرائیورز کی تنخواہ 3 سے 6 لاکھ پاکستانی روپے ہے، الیکٹریشن کی تقریباً پاکستانی تنخواہ 4 سے 6 لاکھ تک ہوتی ہے۔
کویت:
کویت بھی ایک امیر عرب ملک ہے اور یہاں آئل اینڈ گیس سیکٹر میں ملازمت کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
کویت میں بزنس ایڈمنسٹریشن، الیکٹریکل انجینیئرز، سول انجینیئرز، پروفیسر، آئی ٹی پروفیشنلز، پیٹرولیم انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد وغیرہ، یہ وہ تمام نوکریاں ہیں جو بہت زیادہ ڈیمانڈنگ ہیں۔
کویت میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تنخواہ 400 کویتی دینار سے 1 ہزار کویتی دینار ہے۔ جو پاکستانی تقریبا ساڑھے 3 لاکھ سے 9 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
آئی ٹی پروفیشلنز کے لیے 500 کویتی دینار کی 1400 کویتی دینار تک تنخواہ ہے۔ جو پاکستانی تقریباً 5 لاکھ سے 12 لاکھ روپے ہے۔ لیکن مہارت رکھنے افراد کی تنخواہ اس رینج سے زیادہ ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستانیوں کے لیے خوشخبری، بلغاریہ نے 30 لاکھ ملازمتوں کیساتھ اپنے دروازے کھول دیے
کویت میں انگریزی کے پروفیسرز کی کافی ڈیمانڈ ہے۔ جن کی تنخواہ 600 کویتی دینار سے 1200 کویتی دینار تک ہوتی ہے۔ یعنی پاکستانی تقریباً ساڑھے 5 سے 10 لاکھ تک بنتی ہے۔
اسی طرح الیکٹریکل انجینیئرز اور سول انجینیئرز کی تنخواہ تقریباً ساڑھے 3 لاکھ سے ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی روپے ہے۔ یعنی 400 کویتی دینار سے 800 کویتی دینار۔
کینیڈا:
کینیڈا ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور یہاں ہیلتھ کیئر، تعلیم، ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں بہت سے ملازمت کے مواقع موجود ہیں۔
سافٹ ویئر ڈولپرز کی سالانہ آمدن 80 سے 90 ہزار کینیڈین ڈالر ہے۔ لیکن سیلری آپ کی اسکلز اور تجربے پر بھی انحصار کرتی ہے۔
سائبر سیکیورٹی ایکسپرٹ کی ماہانہ تنخواہ 1 لاکھ کینیڈین ڈالر سے 1 لاکھ 50 ہزار کینیڈین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ لیکن کمپنیاں یہ آپ کے تجربے اور اسکلز کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کرتی ہیں۔
ہیلتھ کیئر کے شعبے میں کینیڈا میں کافی زیادہ ملازمین کی ضرورت ہے۔ اگر نرسنگ کی بات کی جائے تو کینیڈا میں نرسز کی سالانہ آمدن تقریباً 70 ہزار سے 90 ہزار کینیڈین ڈالر ہوتی ہے۔ فیملی فزیشن کی بھی کافی ڈیمانڈ ہے۔ جنہیں 2 لاکھ کینیڈین ڈالر سے 3 لاکھ کنیڈین ڈالر تک تنخواہ مل سکتی ہے۔
جرمنی میں ملازمت کا خواب دیکھنے والوں کی راہ آسان ہوگئی
اس کے علاوہ کینیڈا میں پلمبرز، الیکٹریشن، مستری، معمار، کارپینٹر، ویلڈرز اور دیگر شعبوں میں اسکلڈ افراد کی ضرورت ہے۔
کینیڈا میں کارپینٹر کی فی گھنٹہ اوسط آمدن تقریباً 30 ڈالر ہے۔ یعنی پاکستانی تقریبا 6 ہزار روپے ہے۔ اسی طرح ویلڈر کی فی گھنٹہ اوسط آمدن تقریباً 26 کینیڈین ڈالر ہوتی ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ 50 کینیڈین ڈالر تک ہوتی ہے۔ یعنی یہ پاکستانی تقریباً 5 ہزار روپے سے 10 ہزار روپے ہے۔ الیکٹریشن کی ملازمت بھی کینیڈا میں کافی زیادہ ڈیمانڈنگ ہے اور الیکٹریشن کی تنخواہ بھی فی گھنٹہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی 10 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ لیکن یہ آپ کے تجربے اور اسکلز پر منحصر ہے۔
آسٹریلیا:
آسٹریلیا میں چائلڈ کیئر کی آسٹریلیا میں سالانہ آمدن 50 ہزار آسٹریلین ڈالر ہے۔ اسی طرح سیکیورٹی گارڈ کی فی گھنٹہ آمدن زیادہ سے زیادہ 50 آسٹریلین تک ہوتی ہے۔ جو کہ پاکستانی تقرئبا 9 ہزار روہے بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستانیوں کے لیے اچھی خبر، آئرلینڈ میں غیر ملکی ہُنرمندوں کے لیے ملازمتوں کا حصول آسان ہوگیا
ایک ٹرک ڈرائیور کی فی گھنٹہ آمدن 30 سے 50 آسٹریلین ڈالر تک ہوتی ہے۔ جو کہ پاکستانی 5 سے 10 ہزار بنتی ہے۔ اس کے علاوہ فوڈ ڈیلیوری، کار واشر، اور ریسٹورنٹ میں کام کرنے والے افراد کی فی گھنٹہ آمدن تقریباً 24 سے 26 آسٹریلین ڈالر تک ہوتی ہے یعنی پاکستانی 3 سے 4 ہزار روپے۔ ان نوکریوں کے لیے کسی خاص تجربے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اکاؤنٹنٹ، آئی ٹی اسپیشلسٹ، سافٹ ویئر انجینیئرز کی فی گھنٹہ آمدنی 70 سے 75 آسٹریلین ڈالر تک ہوتی ہے۔ جو کہ تقریباً پاکستانی 14 ہزار روپے بنتے ہیں۔
ڈاکٹرز کی آسٹریلیا میں فی گھنٹہ آمدن تقریباً 82 ڈالر ہے۔ جو پاکستانی تقریباً 15 ہزار روپے بنتے ہیں۔ لیکن یہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے، تاہم اس کا انحصار آپ کے تجربے پر ہے۔
جرمنی:
مفت تعلیم کے حصول کے لیے جرمنی ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔ لیکن ایک طویل عرصے سے جرمنی کو ملازمین کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس سے اس کی صنعتی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی اپنی امیگریشن پالیسیوں میں تیزی سے تبدیلیاں لا رہا ہے۔ جس کے بعد جرمنی جانے کے خواہشمند افراد کے لیے جرمنی جانا کافی آسان ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کینیڈا میں ملازمتوں کا موقع، نئے 5 سالہ ورک پرمٹس کا اعلان
واضح رہے کہ جرمنی کو تقریباً 2 ملین ہنرمند افراد کی قلت کا سامنا ہے جس کے باعث وہاں کی کمپنیاں اور صنعتیں ہنرمند افراد کی تلاش میں ہیں۔ دراصل جرمنی کو مختلف شعبوں میں ماہرین کی ضرورت ہے۔ جن میں انجینیئرز، آئی ٹی ماہرین، میڈیکل کیئر، ٹرک ڈرائیورز، ٹھیکیداری اور لاجسٹکس جیسے شعبوں کے لیے ہنرمند افراد کی ضرورت ہے۔
انجینیئرز کی بات کی جائے تو یاد رہے کہ جرمنی میں انجینیئر کے لیے جرمن زبان آنا ضروری نہیں۔ جرمنی میں انجینیئر کی اوسط تنخواہ 4400 یورو ماہانہ ہے۔ ٹیکس اور دیگر کٹوتیوں کے بعد آپ کو تقریباً 2800 یورو ملیں گے۔جو پاکستانی تقریبا ساڑھے 8 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
اگر آپ آئی ٹی میں مہارت رکھتے ہیں تو جرمنی میں آپ کے لیے بہترین مواقع موجود ہیں۔ جرمنی میں سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ، ایپلیکیشن مینجمنٹ، آئی ٹی سیکیورٹی، ڈیٹا سائنس اور سائبر سیکیورٹی کے شعبوں میں قابل افراد درکار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:ورلڈ بینک کی معاونت سے جاری منصوبوں میں ملازمت کے کیا مواقع ہیں؟
واضح رہے کہ اگر آپ کے پاس جاب آفر ہے تو آپ کوالیفائیڈ پروفیشنلز کے لیے ورک ویزا اپلائی کرسکتے ہیں۔ یہاں آئی ٹی ماہرین کی ماہانہ تنخواہ 6000 یورو تک ہوتی ہے۔ یعنی ٹیکس اور دیگر کٹوتیوں کے بعد کوئی بھی فرد قریباً 3600 یورو تک کما سکتا ہے۔ جو پاکستانی تقریباً 11 الکھ روپے بنتے ہیں۔
جرمنی کو ٹرک ڈرائیورز اور دیگر بڑی گاڑیاں چلانے والے ڈرائیورز بھی درکار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی میں ٹرک ڈرائیورز کو برسوں پر محیط پروفیشنل ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر یورپی یونین کے کسی رکن ملک کا جاری کردہ لائسنس ہونا لازمی ہے۔ تنخواہ کی بات کی جائے تو جرمنی میں ایک ٹرک ڈرائیور اوسطاً 2700 یورو کماتا ہے، ٹیکس اور دیگر کٹوتیوں کے بعد اس کے ہاتھ میں 1870 یورو آتے ہیں۔جو پاکستانی تقریباً ساڑھے 5 لاکھ بنتے ہیں۔