عمران خان ان لوگوں میں سے ہے جن کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا ہے۔ حمایت اور مخالفت میں بے شمار چیزیں کہی گئیں، ایسے میں یہ جاننا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا سچ اور کیا غلط ہے؟ ان میں سے ایک روحانیت اور روحانی شخصیات ہیں۔
عمران خان کے مخالفین کا خیال ہے کہ خان صاحب اپنی اہلیہ کے روحانی پہلوؤں سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی حکومت کے دوران بھی بشریٰ بی بی کے استخاروں اور روحانی مشوروں کا اہم کردار تھا۔ ہمارے پاس اس بات کو جانچنے کے ناقابل تردید شواہد موجود نہیں کیونکہ عمران خان نے کبھی اس پر بات کی اور نہ ہی ان کی اہلیہ نے کبھی اس حوالے سے میڈیا سے بات کی۔ عمران خان نے البتہ اپنی کتاب ’میں اور میرا پاکستان‘ میں ان شخصیات کاتذکرہ کیا ہے جنہوں نے ان کی زندگی تبدیل کی اور روحانیت کی طرف مائل کیا۔
اس کتاب کے تیسرے باب ’موت اور پاکستان کی روحانی حیات‘ میں عمران خان نے لکھا ہے کہ 14 سال کی عمر میں انہیں اپنی زندگی کے پہلے روحانی تجربے سے واسطہ پڑا۔ وہ ان دنوں اللہ اور مذہب کے حوالے سے تشکیک کا شکار تھے۔ کچھ عرصہ قبل ان کی والدہ ساہیوال میں مقیم ایک مذہبی اور روحانی خاتون شخصیت سے روحانی تعلق قائم کر چکی تھیں۔ عمران خان کی والدہ کی روحانی پیشوا پہلی اور آخری بار ان کے گھر آئیں۔ عمران خان کی والدہ انہیں بزرگ خاتون کے پاس لے گئیں تاکہ دعا کرائیں۔ عمران کے بقول وہ فرش پر بیٹھی تھیں اور انہوں نے چادر اوڑھ رکھی تھی، میری طرف دیکھا اور نہ ہی ان کا چہرہ دکھائی دیا۔ کچھ دیر وہ خاموش رہیں اور پھر کہنے لگیں کہ اس نے ناظرہ قرآن کی تعلیم مکمل نہیں کی۔ 14 سالہ عمران یہ سن کر حیران رہ گیا، کیونکہ یہ راز ان کے اور ان کے قاری صاحب کے درمیان محفوظ تھا۔ عمران اپنے کھیل کی وجہ سے پڑھنے پر تیار نہ ہوتا اور آخر مولوی صاحب کے ساتھ مل کر دونوں نے والدہ کو یقین دلایا کہ قرآن پاک پڑھ لیا گیا ہے۔عمران خان کی والدہ اپنی مرشد کی بات سن کر پریشان اور افسردہ ہوگئیں، تب وہ بولیں، فکر نہ کرو، یہ اچھا لڑکا ہے، ایک وقت آئے گا یہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ پھر بزرگ خاتون نے پیشگوئی کی کہ آپ کا فرزند عالمگیر شہرت کا حامل ہوگا اور خود آپ کے نام کا چرچا اس کی وجہ سے گھر گھر پہنچ جائے گا۔21-22 سال بعد عمران خان نے والدہ کے نام پر بنائے کینسر اسپتال کو اسی پیشگوئی کے سچے ہونے کا ثبوت جانا۔
جب عمران خان 1987 ورلڈ کپ ہارنے کے بعد اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکا تھا، انہی دنوں لاہور کے دیہی علاقے میں بابا چالا نامی ایک شخص سے ملاقات ہوئی۔ عمران کے دوستوں نے بابے سے پوچھا کہ کرکٹ چھوڑنے کے بعد یہ کیا کرے گا؟ بابا چالا نے ایک نظر ڈالی اور بولا یہ ابھی کھیلنا نہیں چھوڑے گا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو ریٹائر ہوچکا ہے۔ بابا بولا نہیں، یہ ابھی کئی سال مزید کھیلے گا۔
عمران خان کے ایک دوست کو اسی باباچالا نے بتایا کہ تم نے جہاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہاں دھوکا ہوگا، اس لیے پیسے واپس لے لو۔ عمران اور اس کے دوست اس پر حیران ہوئے کہ بابے نے یہ کیسے بتایا کہ کتنی رقم کی سرمایہ کاری ہوئی تھی؟ خیر چند ہفتوں بعد پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق کے زور دینے پر عمران خان نے ریٹائرمنٹ واپس لے لی اور 5 سال مزید کھیلتا رہا۔
عمران خان کے بقول جس شخص نے ان کی زندگی مکمل طورپر تبدیل کی، ایمان اور دین کی حقیقت کی طرف واپس لے آیا، وہ میاں بشیر تھے۔ ایک درمیانے درجے کے ریٹائر سرکاری ملازم اور نہایت سادہ انسان۔ پہلی ملاقات میں میاں بشیر نے عمران سے پوچھا کہ آپ کیا قرآن کی فلاں آیات پڑھا کرتے ہیں؟ عمران ایسا نہیں کرتا تھا، اس نے نفی میں جواب دیا۔ میاں بشیر پہلے حیران ہوئے، پھر غور کیا تو بولے کہ ہاں مجھے غلطی لگی، یہ آیات آپ کی والدہ آپ پر پڑھ کر پھونکا کرتی تھیں۔ عمران خان کو یاد آیا کہ والدہ ہر روز رات کو سوتے ہوئے یہ ان پر پڑھا کرتیں۔ میاں بشیر نے حیرت زدہ عمران کو بتایا کہ ان آیات نے آپ کی حفاظت کی۔ پھر میاں بشیر نے ان کے خاندان کے 2-3 ایسے واقعات بتائے جن کے بارے میں باہر کا کوئی شخص نہیں جانتا تھا۔
عمران خان نے پوچھا کہ یہ ہنر آپ نے کیسے سیکھا؟ میا ں بشیر نے سادگی اور عجز سے جواب دیا کہ یہ اللہ کی رضا ہے، بعض اوقات رب التجا کے بغیر ہی مجھے بتا دیتا ہے اور کبھی دعا کرتا ہوں مگر وہ پوری نہیں ہوتی اور کچھ پتا نہیں چلتا۔
آئندہ برسوں میں عمران خاں کی میاں بشیر سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ عمران خان کو وہ ایک عام آدمی کی طرح نظر آتے۔ اپنی ذات کو اہمیت نہ دیتے۔ ان میں انکسار تھا۔ وہ کہتے ’میں ماضی اور مستقبل میں نہیں جھانک سکتا، البتہ جب اللہ کی طرف متوجہ ہوتا اور دعا کرتا ہوں تو بعض اوقات وہ پردہ ہٹا دیتا ہے، مجبوروں کی مدد کے لیے‘۔
میاں بشیر سے ہر ملاقات کے بعد عمران خان کا اللہ پر یقین بڑھ جاتا۔والدہ کی وفات کے بعد وہ اندر سے زخمی تھے، بہت سے سوالات انہیں پریشان کرتے۔ میاں بشیر نے ان کی وہ تمام الجھنیں دور کر دیں جو حقیقی اعتقاد کی راہ میں حائل تھیں۔
میاں بشیر نے عمران کو اندر سے بدلنے کی کوشش کی۔ بتایا کہ سچے یقین کے بغیر محض دکھاوے کی عبادت کا کوئی فائدہ نہیں۔سب سے پہلے آدمی کو مسلمان ہونا چاہیے، اس کے باطن کو بدلنا چاہیے اور یہ کہ یقین وقت گزرنے کے ساتھ ہی گہرا ہوتا ہے۔ میاں بشیر کی بعض باتیں سمجھنے میں عمران کو 6-6 ماہ بھی لگ جاتے، مگر میاں صاحب کو جلدی نہ ہوتی۔ عمران خان اس سے متاثر ہوا کہ ان کا کوئی ذاتی مقصد نہیں اور وہ محض عمران کی بھلائی کے لیے ان کی مدد کر رہے ہیں۔ وہ کہتے کہ ایک خاص حد تک ہی مدد کر سکتے ہیں۔
عمران خان ان سے دعا کی درخواست کرتا تو میاں بشیر جواب میں کہتے، نہیں تم خود دعا کرو۔ عمران ان سے مشورہ مانگتا تو میاں بشیر کہتے، تمہیں اللہ سے ہدایت کی التجا کرنی چاہیے۔ انہوں نے کبھی عمران سے کچھ مانگا اور نہ ذاتی مفاد کی خواہش کی۔
میاں بشیر نے سب سے زیادہ عمران کو یہ سکھایا کہ ایمان اللہ کی سب سے بڑی عطا ہے اور اگر مذہب ذہنی سکون عطا نہیں کرتا تو وہ حقیقی نہیں یعنی آدمی کے باطن میں سرائیت نہیں کر سکا۔
عمران خان ایک برطانوی نومسلم اسکالر چارلس گائی ایٹن سے بھی بہت متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ علامہ اسد (لیوپولڈ) کی کتابوں نے بھی عمران کو متاثر کیا۔ اپنی کتاب میں عمران نے لکھا کہ سب سے زیادہ ان پر علامہ اقبال کے اثرات ہوئے۔ عمران خان نے اقبال پر کئی صفحا ت تحریر کیے اور پھر آخر میں ایک مکمل باب بھی۔
عمران خان نے اپنی کتاب میں میاں بشیر کی بعض کرامات کا ذکر کیا ہے۔میاں بشیر کی بدولت عمران تصوف کی طرف مائل ہوئے اور پڑھنا شروع کیا۔ مولانا روم کو پڑھا اور پھر شیخ محی الدین ابن عربی کی سوانح عمری پڑھی تو انہیں میاں بشیر کو سمجھنے میں مدد ملی۔ عمران کے بقول میاں بشیر سے ان کے 20 سالہ تعلق میں ان کی ایک بھی پیش گوئی ایسی نہیں تھی جو غلط ثابت ہوئی۔
عمران خان نے بتایا کہ ابتدا میں جمائما میاں بشیرکے تذکرے کو شک کی نظر سے دیکھتی تھی۔ پہلی ملاقات میں انہو ں نے جمائما سے کہا کہ وہ 3 ایسی چیزوں کو تحریر کرے جو اسے زندگی میں سب سے زیادہ مطلو ب ہیں۔ جمائما نے ایسا کیا تو میاں بشیر نے کاغذ پر نظر ڈالے بغیر جمائما کو بتا دیا کہ وہ 3 خواہشات کیا ہیں۔ جمائما حیران پریشان رہ گئی۔ عمران خان کا شوکت خانم اسپتال جب تعمیر کے مراحل سے گزر رہا تھا تو میاں بشیر نے ایک دو مواقع پر عمران کی مدد کی اور انہیں بتایا کہ فلاں ٹھیکے دار بدعنوان ہے اور اصل مسئلہ کہاں ہے؟
جمائما سے شادی کے بعد عمران خان لندن میں ایک اہم عدالتی کیس میں الجھ گیا۔ برطانوی کھلاڑیوں آئن بوتھم اور ایلن لیمب نے عمران پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ عدالتی کارروائی عمران کے خلاف تھی، برطانوی جج واضح طور پر متعصب تھا، اس نے جیوری کو بھی مس گائیڈ کیا۔ کیس کے اختتام پر عمران خان اور اس کے برطانوی وکیل کو اندازہ ہوگیا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہے۔ عمران پر 5 لاکھ پونڈ ہرجانہ کا خدشہ تھا۔ عمران پریشان ہوا کہ وہ اس جرمانے سے دیوالیہ ہوجاتا اور اسے ادائیگی کے لیے اپنی بیوی سے رقم ادھار لینا پڑتی۔
میاں بشیر سے پاکستان فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ جیوری خلاف سوچ رہی ہے اور فیصلہ خلاف آنے کا خدشہ ہے۔ جیوری جب فیصلہ کی مشاورت کے لیے اپنے مخصوص کمرے میں چلی گئی اور 3-4 گھنٹوں کا وقفہ آیا، تو عمران کو اس کے ایک دوست نے آ کر کہا کہ میاں بشیر سے فون پر بات کرو۔ عمران کورٹ سے باہر گیا، میاں بشیر سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ رب مہربان ہے اور اب جیوری کے لوگوں کا ذہن بدل رہا ہے، ان شااللہ فیصلہ حق میں آئے گا۔ پھر کچھ دیر بعد جیوری نے 10/2 کے تناسب سے عمران کے حق میں فیصلہ کر دیا اور لیمب اور بوتھم کو بھاری ہرجانہ ہوا۔ وہ دونوں حیران تھے کہ عمران کے حق میں فیصلہ کیسے ہوگیا؟ عمران خان اسے میاں بشیر کی ایک کرامت اور ان کی دعا کی قبولیت ہی تصور کرتا رہا۔
اپنی کتاب کے آخری صفحات میں عمران نے بتایا کہ جب میری پارٹی بدترین سیاسی پوزیشن میں تھی، میں اپنے پرانے دوست گولڈی کے ساتھ میاں بشیر سے ملنے گیا، وہ بیمار تھے۔ گولڈی نے پوچھا کہ کبھی ہماری پارٹی کو اقتدار ملے گا؟ میاں بشیر نے چند منٹ تک آنکھیں بند کیں اور بولے، ’اقتدار تب ملے گا، جب عمران یہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہوجائے گا‘۔
عمران خان کی کتاب 2013 کے الیکشن سے پہلے آئی، عمران کو تب امید تھی کہ وہ الیکشن جیت جائے گا، ایسا مگر 5 سال بعد ہوا۔ آج پھر عمران خان اور اس کی جماعت برے سیاسی حالات اور مشکلات سے گزر رہی ہے۔ افسوس کہ اب عمران خان کو میاں بشیر جیسے مخلص اور نیک شخص کی دعائیں اور ساتھ میسر نہیں۔