وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا ہے کہ بدقسمتی ہے ججوں اور جرنیلوں کی مہم جوئی سے ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے۔ ہر طرف سیاسی، عدالتی، معاشی اور اخلاقی بحران نظر آ رہا ہے۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا جب ڈی چوک میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی چھتری تلے فتنے کو آنے کی اجازت ملی اور حکم عدولی پر نوٹس ہوا تو کہا گیا اسد عمر کو معلوم تھا مجھے حکم عدولی کا پتا نہیں چلا۔ لاڈلا کہتا ہے 90 روز میں الیکشن ہونے چاہئیں جب آرٹیکل 63 اے کا سہارا لے کر پنجاب حکومت کو گرایا گیا تو آئین دوبارہ لکھا گیا تھا۔
جاوید لطیف نے کہا لاڈلے کو آئینی ترمیم سے خواہش پوری کرنے کا موقع دیا گیا۔ جسٹس منیر نے مارشل لاء کو تحفظ دینے کے لیے نظریہ ضرورت کو بے دریغ استعمال کیا۔ عمرانی فتنہ کو موقع دینے کے لیے عمرانی نظریہ دیا گیا، کوئی بتائے کہ از خود نوٹس اس وقت کیا جاتا ہے جب قومی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی مفاد میں ازخود نوٹس لیے جاتے تو عتیقہ اوڑھو کی شراب پر ازخود نوٹس ہوتا، گلی میں پانی پر ازخود نوٹس ہوتا ہے؟ لیکن کبھی نہیں دیکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والوں نے اعتراف جرم کیا ہو۔ وہ ججز بھی اعتراف جرم کرلیں جنہوں نے نواز شریف کو نااہل کیا۔ نوازشریف کو دی گئی سزائیں فل کورٹ بنا کر واپس لی جائیں۔
ان کا کہنا تھا ’کیا 2023 کے انتخابات بھی ’رِنگ‘ سے باہر ہوں گے؟ تو قبول نہیں کریں گے۔ نوازشریف کو غدار سیسلین مافیا کہا گیا کیا اس پر ازخود نوٹس ہوا؟ عمران خان بدکردار اور کرپٹ ہونے، آئین سے کھلواڑ کرنے کے باوجود رجسٹرڈ صادق و امین ہے۔
جاوید لطیف نے کہا کہ الیکشن کی جلدی اس لیے ہے کہ کہیں عمران خان کا صادق و امین کا نقاب نہ اتر جائے۔ کیا انصاف، آئین اور مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بے گناہ کو گنہگار قرار دیدیں۔ ثبوتوں کے باوجود ایک بد کردار ملک دشمن للکارتا پھرے اور اسے نوٹس تک نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ جب اداروں پر پیٹرول بم پھینکا گیا تو کیا اسوقت ازخود نوٹس نہیں ہونا چاہئے تھا۔ جب سائفر لہرایا گیا اور جب اداروں کو، سہولت کاروں کو پکارا جاتا رہا، اس وقت ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟
جاوید لطیف نے کہا جب ایک بے گناہ کو سزا دی گئی تو کسی کو خط نہیں لکھا، ججز کو دھمکیوں کا نہیں کہا، نہ ہی عدالتوں پر حملے کا کہا۔ نواز شریف نے تکلیفوں پر لب نہیں کھولے۔ 10 سال جبراً پاکستان سے باہر رکھا گیا، پاکستان کے قیمتی سال ضائع کیے گئے۔ اس وقت از خود نوٹس لینا چاہئے تھا جب 35 روپے کلو والا آٹا 100 سے تجاوز کر رہا تھا اور معیشت تباہ کی جا رہی تھی۔
کہا اس وقت ازخود نوٹس ہونا چاہئیے تھا جب 2 ہزار 18 میں آر ٹی ایس بند کرکے عمران خان کو جتوایا گیا اور لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ڈالو میں پھنکوایا جاتا تھا۔ پنکی پیرنی کے لیے تڑپنے والے سن لیں جب باپ کے سامنے بیٹی کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو ازخود نوٹس کو خواہش نہیں کی گئی تھی۔
جاوید لطیف نے مزید کہا ملک میں قراردادیں منظور ہو رہی ہیں تو ان کے پیچھے نواز شریف کھڑا ہے وہ کسی وقت بھی تحریک کا اعلان کرے گا۔ نواز شریف پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے کسی بھی حد تک چلا جائے گا۔ بات اگر ججز کے فیصلوں یا اسٹیبلشمنٹ تک جاتی تو خاموش رہتا لیکن بات آگے نکل گئی ہے وہ قوتیں جو پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں وہ حرکت میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا پاکستان معاشی، سیاسی اور عدالتی بحران سے کمزور نظر آ رہا ہے۔ بین الاقوامی قوتیں ملکی اداروں کو دبا کر ملکی مفاد کیخلاف فیصلہ کرنا چاہتی ہیں۔ مالیاتی ادارے ایک کے بعد دوسرا مطالبہ رکھ رہے ہیں، اس لیے کہ خطے کا نقشہ تبدیل ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی قوتیں چاہتی ہیں پاکستان چین کے سامنے کھڑا ہو جائے۔
جاوید لطیف نے کہا عدلیہ کے ذریعے، چند جرنیلوں کے ذریعے یا عالمی قوتوں سے میری آزادی سلب ہو، تو بات نہ کروں تو سب سے بڑا غدار ہوں گا۔ عالمی قوتیں عمران خان سے وہ باتیں منوا رہی جن سے اداروں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ بین الاقوامی قوتیں عمران خان جیسے لاڈلے کو نئے آر ٹی ایس سے اقتدار پر لانا چاہتی ہیں۔ آج کیوں خواہش کی جا رہی ہے کہ اکثریت کے بجائے اقلیت کے فیصلے کو مانا جائے۔
ان کا کہنا تھا کچھ آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں کہ اسلام آباد استعفی لینے کے لیے آئیں گے۔ چند ججوں اور چند جرنیلوں کے فیصلوں سے پاکستان کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ عمرانی فتنے کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے کچھ لوگ ریٹائرڈ ہو کر بھی سہولت کاری کررہے ہیں۔
جاوید لطیف نے کہا اتنے بڑے منصب پر چھوٹے شخص عارف علوی کو بٹھایا گیا لیکن پارلیمنٹ بالادست ہے اپنا کردار ادا کرے گی۔ عمران خان کون سے آئین و قانون کے تحت بات کرنا چاہتے ہیں۔