پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس دراب پٹیل کے تجربے نے ثابت کیا کہ وفاقی آئینی عدالت پاکستان کی ضرورت تھی۔ جسٹس پٹیل نے آئینی عدالت کا خیال اپنے ساتھیوں، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمان، سے شیئر کیا جو ان سے متفق تھے۔ ہماری تاریخ ان لوگوں کے لیے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا آغاز کرکٹ ورلڈ کپ سے ہوتا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے اپنے اہم ’ایکس‘ پیغام میں کہا ہے کہ ہماری تاریخ ان لوگوں کے لیے ناگوار ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا عروج عمران خان اور جنرل فیض کے انقلاب پر ہوتا ہے۔ آئینی ارتقا، منشور اور میثاق جمہوریت کے لیے ہمارا عزم ہمیشہ یکساں رہا ہے، چاہے وزیر اعظم، ججز اور اسٹیبلشمنٹ کے چہرے بدلتے رہیں۔
چیئرمین پیپلز پاڑٹی کا کہنا تھا کہ ہم کبھی بھی آمروں اور ججز کی طرح من مانی سے قانون سازی یا آئین میں ترمیم نہیں کرتے، ہم اپنی نسلوں کے لیے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں 18ویں ترمیم میں 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے لیے 30 سال لگے۔ ہمیں 19ویں ترمیم اور پی سی او چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سیاست کے عدالتی فیصلوں کے نقصانات کو دور کرنے کے لیے قریباً 2 دہائیاں لگ چکی ہیں۔
مزید پڑھیں:چیف جسٹس بھٹو کیس کے بجائے زیر التوا مقدمات سنتے تو زیادہ اچھا ہوتا، اعجازالحق
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 26ویں ترمیم عجلت میں نہیں کی جا رہی، بلکہ یہ کافی عرصہ پہلے ہی ہونی چاہیے تھی۔ جسٹس دراب پٹیل ان 4 معزز ججوں میں شامل تھے جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بری کیا۔ جسٹس دراب پٹیل نے بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا حصہ بننے سے انکار کیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے اہم ٹویٹر پیغام
سپریم کورٹ کے جج جسٹس دراب پٹیل کے تجربے نے ثابت کیا کہ وفاقی آئینی عدالت پاکستان کی ضرورت تھی، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری
جسٹس پٹیل نے آئینی عدالت کا خیال اپنے ساتھیوں، عاصمہ… https://t.co/54qyNkHq9w
— PPP (@MediaCellPPP) October 13, 2024
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک بانی رہنے والے جسٹس پٹیل کا مؤقف تھا کہ قائد عوام کو سزا دینے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا، ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے بانی رکن رہنے والے جسٹس پٹیل بھٹو شہید کیس میں گواہ کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے تھے، دراب پٹیل نے یہ بھی کہا کہ بھٹو شہید کا ہائیکورٹ میں ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلانا ایک غلطی تھی، جسے تسلیم کرنے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو 45 برس لگے۔
چیئرمین بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ جسٹس پٹیل نے 1981 میں آمر ضیا الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا اور مستعفی ہونا پسند کیا، سندھ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس دراب پٹیل اگر ایسا نہ کرتے تو وہ پاکستان کے چیف جسٹس بن جاتے۔