افغانستان میں طالبان کی وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے پیر کے روزاس قانون پر عمل درآمد کا عزم کیا ہے جس کے تحت میڈیا پر کسی بھی جاندارچیزکی تصاویرشائع کرنے پر پابندی عائد کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان کے اقتدار میں رہتے ہوئےصحافی برادری شدید خطرے میں ہے، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی رپورٹ
یہ اعلان طالبان حکومت کی جانب سے شریعت کے قانون کے نفاذ کو باضابطہ بنانے کے لیے قانون سازی کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ یہ قانون تمام افغانستان پر لاگو ہو گا۔
وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان سیف الاسلام خیبر نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ اس قانون پر بتدریج عمل درآمد کیا جائے گا’، انہوں نے مزید کہا کہ حکام لوگوں کواس بات پر قائل کرنے کے لیے کام کریں گے کہ زندہ چیزوں کی تصاویراسلامی قانون کے خلاف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے نفاذ میں جبرنہیں ہے، تاہم یہ مشورہ اور ہدایت ہے کہ یہ چیزیں واقعی شریعت (قانون) کے خلاف ہیں اور ان سے گریز کیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں:افغانستان: طالبان نے داڑھی نہ رکھنے پر 280 سے زیادہ سیکیورٹی اہلکاروں کو برطرف کردیا
نئے قانون میں نیوز میڈیا کے لیے متعدد قوانین جاری کرتے ہوئے ان کی وضاحت کی گئی ہے، جن میں تمام جاندار چیزوں کی تصاویر کی اشاعت پر پابندی اور اداروں کو حکم دینا شامل ہے کہ وہ مذہب کی توہین نہ کریں، یا شرعی قوانین سے متصادم کسی بھی چیز کی اشاعت نہ کریں۔
نئے قانون کے پہلوؤں پر ابھی تک سختی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے، جس میں عام لوگوں کو فون اور دیگر آلات پر جاندار چیزوں کی تصاویر نہ لینے یا دیکھنے کا مشورہ بھی شامل ہے۔
طالبان حکام باقاعدگی سے سوشل میڈیا پر لوگوں کی تصاویر پوسٹ کرتے رہتے ہیں اور افغان صحافیوں نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ قانون کے اعلان کے بعد انہیں حکام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں گے۔
وزارت اطلاعات نے فوری طور پر صحافیوں کے لیے نئے قوانین پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
سیف الاسلام خیبر نے بتایا کہ میڈیا سے متعلق قانون کی دفعات پر عمل درآمد کے لیے بہت سے صوبوں میں کوششیں جاری ہیں لیکن ابھی تک تمام صوبوں میں اس کا آغاز نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں افغان طالبان حکومت کے خواتین مخالف 80 حکم نامے جاری؟
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے جنوبی گڑھ قندھار اور ہمسایہ صوبہ ہلمند کے ساتھ ساتھ شمالی تخار میں اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔
حالیہ قانون کے اعلان سے قبل صرف قندھار میں طالبان حکام نے جاندار چیزوں کی تصاویر اور ویڈیوز لینے پر پابندی عائد کر رکھی تھی لیکن اس قانون میں نیوز میڈیا کو شامل نہیں کیا گیا تھا تاہم سیف الاسلام خیبر نے کہا کہ اب یہ سب پر لاگو ہو گا۔
صحافی طلب
اتوارکو وسطی صوبہ غزنی میں پی وی پی وی حکام نے مقامی صحافیوں کو طلب کیا اور انہیں بتایا کہ اخلاقی قوانین کے نفاذ کے لیے تعینات پولیس آہستہ آہستہ اس قانون پر عمل درآمد شروع کر دے گی۔
ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے فوٹو گرافرز کو مشورہ دیا کہ وہ دور سے تصاویر لیں اور کم سے کم واقعات کی فلم بندی کریں۔
1996 سے 2001 تک طالبان کے دور حکومت میں ملک بھر میں ٹیلی ویژن اور جاندار چیزوں کی تصاویر پر پابندی عائد کی گئی تھی، لیکن اقتدار میں واپسی کے بعد سے اب تک اس طرح کا حکم وسیع پیمانے پر نافذ نہیں کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کیا افغان طالبان نے اپنی میڈیا پالیسی دہشت گرد احسان اللہ احسان کو سپرد کر دی ہے؟
تاہم، 2021 کے بعد سے حکام نے کاروباری مالکان کو سنسرشپ کے کچھ قوانین پر عمل کرنے پر مجبور کیا، جیسے اشتہارات پر مردوں اور عورتوں کے چہروں کو شائع نہ کرنا، دکانوں کے مینیکنز کے سروں کو پلاسٹک کے تھیلوں سے ڈھانپنا، اور ریستوراں کے مینو پر تصویر والی مچھلیوں کی آنکھوں کو دھندلا کرنا۔
ہلمند میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر خواتین کی آواز میں خبروں کی اشاعت پر پابندی عائد ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی جانب سے مرتب کردہ پریس فریڈم رینکنگ میں افغانستان 180 ممالک میں سے 122 ویں سے 178 ویں نمبر پر آگیا ہے۔