معروف بھارتی صحافی سہاسنی حیدر کا کہنا ہے کہ انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر کا پاکستان آنا کافی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اس کانفرنس کو آن لائن جوائن کرسکتے تھے لیکن وہ خود آ رہے ہیں۔ ان کا آنا ہی ایک مثبت قدم ہے۔
دی ہندو اخبار کی نمائندہ سہاسنی حیدر کا وی نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ایس سی او ایک بہت اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ 20 برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ چند برس قبل ہی انڈیا اور پاکستان اس کے ممبر بنے۔ اب ایران اور بیلا روس بھی شامل ہو چکے ہیں۔
عمران خان کی حکومت نے بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کی کوشش کی تھی لیکن کابینہ نے اس کو رو ک دیا تھا۔ اب یہ بات خوش آئند ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئے ہیں، بھارتی صحافی سوہاسنی حیدر کی وی نیوز سے گفتگو@suhasinih @FPasha807 pic.twitter.com/fEdRbLw5zc
— WE News (@WENewsPk) October 15, 2024
ان کا کہنا ہے کہ یہاں مغرب مخالف بیانیے پر بھی بات ہوتی ہے اگرچہ یہ اس کے مقصد میں شامل نہیں ہے لیکن ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے ممالک کے مابین تنازعات چل رہے ہیں۔ روس اور یوکرائن کا، غزہ اور اسرائیل کا۔ اس طرح کی صورتحال میں ایسی علاقائی تنظیموں کی اہمیت ہوتی ہے۔ ایس سی او نے دہشتگردی، انتہاپسندی اور بنیاد پسندی پر بھی کافی کام کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان نے ایس سی او اجلاس کے لیے بہترین انتظامات کیے، بھارتی صحافی کی وی نیوز سے خصوصی گفتگو
سہاسنی حیدر کا کہنا ہے کہ انڈیا پاکستان کے جو دو طرفہ تنازعات ہیں وہ اس طرح کی میٹنگز میں تو حل نہیں ہوسکتے۔ جیسا کہ ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کواپریشن (سارک) کی میٹنگز میں تو سب ممالک کے ہیڈز کا ہونا لازمی ہے۔ ایس سی او اجلاس میں تو کوئی نہ بھی ہو تو مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر آ رہے ہیں۔ وہ اب تک کسی بھی اجلاس کے لیے پاکستان نہیں آئے تھے۔ ایسے میں ان کا یہاں آنا کافی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
یہ بھی پڑھیےشنگھائی تعاون تنظیم اجلاس: بھارت سے دوطرفہ تعلقات پر بات چیت کا امکان نہیں، وزیر خارجہ اسحاق ڈار
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل پاکستان میں وزراء کی جو بھی میٹنگز ہوئیں، دوسرے ممالک کے وزراء نہیں آتے تھے۔ وہ آن لائن ہی جوائن کرتے تھے۔ اس بار بھی جے شنکر آن لائن جوائن کر سکتے تھے لیکن وہ خود آ رہے ہیں۔ ان کا آنا ہی ایک مثبت قدم ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ دو طرفہ مذاکرات کے بحال ہونے کا انحصار دونوں فریقین پر ہے لیکن اتنا ضرور ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی لیڈر شپ کے ساتھ بات چیت ہوگی، پھر ایک ڈنر بھی ہے۔ وہاں بات چیت ہو سکتی ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ دوسرے ممالک کے ساتھ کیا بات چیت ہوتی ہے۔ جو آگے چل کر فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں دوطرفہ مسائل پر بات نہیں ہوگی
سہاسنی حیدر کہتی ہیں کہ بھارتی عوام کی پاکستان کے بارے میں رائے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 سے 15 برس میں بھارت اور پاکستان دونوں نے اپنا رخ بدلا ہے اور کوئی مذاکرات نہیں ہوئے۔ خاص طور پر 2019 سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ سب کچھ بند ہوگیا۔ تجارت، ائیر لائن، بس لائن، ویزہ، ہائی کمشنرز، ان سب چیزوں کو مدنظر رکھا جائے تو اس پر ان کے درمیان باقاعدہ بات چیت نہیں ہو رہی، اگرچہ بیک اینڈ پر چلتی رہتی ہے۔ جہاں تک عوام کی بات ہے تو ان کا بھی آنا جانا نہیں ہورہا۔ شاید اب وہ بحال ہو سکے۔ جب تک انڈیا پاکستان کے دو طرفہ تعلقات بحال نہیں ہوتے اس وقت تک شاید معاملات پیچیدہ ہی رہیں گے۔ اگر مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو اس سے کم از کم جو 5 سال قبل چیزیں بند ہوئی تھیں وہ تو دوبارہ سے شروع ہو جائیں گی۔