کیا حکیم محمد سعید کا قتل سندھ حکومت گرانے کا سبب بنا؟

جمعرات 17 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بحیثیت ملک و قوم کے ہمدرد حکیم محمد سعید کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ وہ سندھ کے گورنر بھی رہے جبکہ طب اور دوا ساز ادارے ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کے بانی سربراہ، ممتاز سماجی شخصیت، سیاستدان اور طبیب کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات مثالی ہیں۔

انہیں 17 اکتوبر 1998 کو کراچی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس قاتلانہ حملے کا الزام متحدہ قومی موومنٹ پر لگا تھا اور ٹرائل کورٹ نے نامزد ملزمان کو سزائیں بھی سنادی تھیں لیکن سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے بھی برسوں جاری رہنے والی سنسنی خیز عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر اس مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا تھا۔ اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس قتل کیس میں گرفتار ملزمان بری کیوں ہوئے؟

’حکیم سعید پر حملے کی اطلاع پیجر پر ملی‘

ملک کے معروف کرائم رپورٹر اور نیو نیوز کراچی کے بیورو چیف اے ایچ خانزادہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں کچھ اخبارات والے کہتے تھے کہ 16 اکتوبر کو چھٹی ہونی چاہیے اور کچھ کا خیال تھا کہ نہیں ہونی چاہیے تو اس سلسلے میں ایک تنازع چل رہا تھا اور اخبار مالکان نے کچھ اخبار فروشوں کو گرفتار کروا دیا تھا اور ہم صحافی اخبار فروشوں کو رہا کروانے میں مشغول تھے کہ مجھے پیجر پر اطلاع موصول ہوئی کہ صدر کے علاقے میں کوئی بڑی کارروائی ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جب منٹو نے لیاقت علی خان کے قتل کی سازش آشکار کی

اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اپنے ذرائع سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ حکیم سعید پر حملہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر ہم لوگ سول اسپتال پہنچے تو معلوم ہوا کہ حکیم سعید اسپتال پہنچائے جانے سے پہلے ہی شہید ہوچکے تھے۔

’حکیم سعید کے قتل کا الزام ایم کیو ایم پر لگا‘

سینیئر صحافی نے کہا کہ یہ تو نہیں معلوم کہ حکیم سعید کو کیوں شہید کیا گیا لیکن اس وقت اس قتل کا الزام ایم کیو ایم پر لگا تھا اور اس کے بعد اس کے کچھ کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

’زیادہ ملزمان نامزد کرکے پولیس نے کیس خراب کیا‘

ان کا کہنا تھا کہ حکیم سعید کے قتل میں ملوث 6 افراد ہوں گے جو کہ تحقیقات سے ثابت بھی ہوا لیکن انعامات کے چکر میں گرفتاریاں زیادہ کی گئیں کیوں کہ ہر گرفتاری پر پولیس کو انعام اور ترقی ملتی تھی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مقدمہ خراب ہوگیا۔

جب حکومت کو حکیم سعید کے قتل کے بعد گھر جانا پڑا

اے ایچ خانزادہ بتاتے ہیں کہ حکیم سعید قتل کیس میں ایک شخص عامر اللہ گرفتار کیا گیا جس پر پوری پولیس ٹیم کو یک لخت اگلے عہدوں ہر ترقی دے دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی حکومت کے خلاف جو چارج شیٹ تھی اس میں حکیم سعید قتل کیس سرفہرست تھا جس پر حکومت کو گھر جانا پڑا۔

’یہاں سے ملزم نے پان کھایا تھا‘

اے ایچ خانزادہ کے مطابق پہلی گرفتاری کے بعد پھر گرفتاریاں کچھ یوں ہوتی رہیں کہ کہیں ملزم نے پان کھایا تو پان والے کو گرفتار کر لیا۔ ایسے میں ایس پی کو اچانک ڈی آئی جی بنا دیا گیا اور اسی طرح سلسلہ وار پوری ٹیم کو ترقی دے دی گئی اور ایک عجیب تماشہ ہوا۔

جے آئی ٹی کی تشکیل

اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ پھر اس کیس میں جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم بھی بنائی گئی جس کا مقصد تفتیش میں مدد فراہم کرنا ہوتا ہے اور یہ کمیٹی پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ  جے آئی ٹی نے ملزم عامر اللہ کو ملزم تسلیم نہیں کیا تھا۔

جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا

اے ایچ خانزادہ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف ایک آپریشن کا آغاز ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیے: لیاری گینگ وار کی وہ فلمی لڑائی جو بچوں سے شروع ہو کر پورے خاندان کو ختم کر گئی

ان کا کہنا تھا کہ ایسی شخصیت کے قتل کے بعد شہر میں آپریشن کی سی کیفیت رہی اور ایم کیو ایم کے کئی کارکنان کو اٹھالیا گیا۔

پاکستان ہمدرد ساتھ لائے اور خدمت میں جُت گئے

کراچی میں تقریباً 3 دہائیوں سے کورٹ رپورٹنگ سے وابستہ سینیئر صحافی اصغر عمر بتاتے ہیں کہ حکیم سعید کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان آئے تو ہمدرد ساتھ لے کر آئے اور انہوں نے مختلف شعبوں میں پاکستان کی بھرپور خدمت کی اور یہی وجہ تھی کہ وہ گورنر سندھ بھی رہے۔

انسداد دہشتگردی عدالت نے کیس میں سزا سنائی تھی

اصغر عمر بتاتے ہیں کہ حکیم سعید کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے قتل کا یہ کیس انسداد دہشتگردی عدالت میں گیا جہاں جسٹس قمر الدین بوہرا نے اس کیس کا ٹرائل کیا تھا جو کہ ہمدر یونیورسٹی کے ڈین آف لا بھی رہے تھے اور ایک اچھے جج تھے جنہوں نے اس کیس میں ملزموں کو سزا سنا دی تھی۔

اصغر عمر نے کہا کہ وہ ایک بڑا کیس تھا جس پر پوری دنیا کی نظریں تھیں اور یہی وجہ تھی کہ خصوصی ٹرائل چلا۔ انہوں نےمزید کہا کہ ایم کیو ایم کی طرف سے ایڈووکیٹ سردار اسحاق پیش ہوا کرتے تھے اور ٹرائل اچھا چلا لیکن ہائی کورٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ 80 یا 90 فیصد شواہد پر کسی انسان کی جان نہ لی جائے۔

’عامراللہ کو مرکزی ملزم بنانا پولیس کی غلطی تھی‘

سینیئر صحافی نے کہا کہ اس کیس میں مرکزی ملزم عامر اللہ کو بنایا گیا جو پراسیکیوشن کی بہت بڑی غلطی تھی کیوں کہ شواہد کے مطابق عامر اللہ اس رات سے صبح تک کہیں اور موجود تھے لیکن پولیس نے گرفتاریوں کے لیے رکھے گئے انعامات اور ترقیوں کی خاطر عامر اللہ کو مرکزی ملزم بنا دیا۔

’میاں محمد نواز شریف کی کیس میں دلچسپی اور سندھ میں گورنر راج‘

اصغر عمر کے مطابق اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اس کیس میں دلچسپی لی اور سندھ میں گورنر راج لگا دیا گیا۔ انہوں بتایا کہ مسلم لیگ ن کی ایم کیو ایم کے ساتھ وفاق میں حکومت تھی اور ایم کیو ایم کو حکومت سے ہٹا دیا گیا تھا۔

’کیس میں بے گناہ افراد کو پھنسایا گیا‘

اصغر عمر کے مطابق حکیم سعید کیس میں بہت اچھے شواہد مل چکے تھے اور ملزمان بھی گرفتار ہو چکے تھے لیکن 2 سے 3 بے گناہ افراد کو گرفتار کرنے کی وجہ سے وہ کیس خراب ہوا۔

مزید پڑھیں: بالائی سندھ: 24 جانیں نگل جانے والی قبائلی جنگ کیسے ختم ہوئی؟

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ملزمان کو بری کیا جس کے خلاف حکومت سپریم کورٹ تو گئی لیکن پھر کیس کا کچھ بن نہیں پایا اور اس قتل کے بہت منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہوئے۔

’کیس کے 2 وعدہ معاف گواہ‘

اصغر عمر کے مطابق اس کیس میں 2 وعدہ معاف گواہ بھی تھے جن میں سے ایک حاجی گل تھے۔ انہوں نے کہا کہ گو اس قسم کے مقدمات میں ایسے گواہوں کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی تاہم بیشتر شہادتیں و گواہیاں ٹھیک تھیں لیکن کچھ بے گناہ لوگوں کو شامل کرکے کیس بگاڑ دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp