سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں تسمانیئن ٹائیگر کو معدومیت سے واپس لانے میں اہم کامیابی ملی ہے۔
تسمانیئن ٹائیگر ایک بھیڑیا نما جانور ہے جو کبھی تسمانیہ کے جنگلوں میں آزاد گھومتا تھا اور بیسویں صدی میں معدوم ہوگیا تھا، تاہم امریکا اور آسٹریلیا کے محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس ٹائیگر کو کلوننگ کے ذریعے معدومیت سے واپس زندگی کی طرف لایا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جی ٹی روڈ کنارے: برگد کا مردہ درخت دوبارہ زندہ ہو گیا
آخری تسمانیئن ٹائیگر کی موت 1936 میں ہوبارٹ کے چڑیا گھر میں ہوئی تھی، تسمانیہ کی بڑھتی ہوئی مویشیوں کی صنعت کو بچانے کے لیے اس ٹائیگر کا بڑے پیمانے پر شکار کیا گیا، اب اس ٹائیگر کو معدومیت سے واپس لانے کے لیے سائنسدانوں نے کوششیں شروع کردی ہیں۔
دیلاس میں قائم کمپنی کولوسل بائیو سائنسز کے مطابق تسمانیئن ٹائیگر کو دوبارہ زندگی دینے کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس سے قبل کلوسل بائیو سائنس نے اونی میمتھس (اونی ہاتھی) اور یہاں تک کہ ڈوڈو(بھدا سا پرندہ جو جزائر ماریشس ’بحرہند‘ میں پایا جاتا تھا، جسے انسان نے شکار کرکے صفحہ ہستی سے مٹادیا تھا) کو بھی واپس لانے کے لیے جین ایڈیٹنگ اور تولیدی حیاتیات میں جدید ترین پیشرفت کو استعمال کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سائنسدانوں نے پتھر کے دور کا ’میگا اسٹرکچر‘ دریافت کر لیا
کولسل بائیو سائنس کے چیف آفیسر بیتھ شاپیرو کے مطابق ’ہمارے نئے حوالہ جینوم کے لیے استعمال ہونے والے تسمانیئن ٹائیگر کے نمونے ان بہترین محفوظ قدیم نمونوں میں سے ہیں جن کے ساتھ میری ٹیم نے کام کیا ہے، ایسا نمونہ ہونا نایاب ہے جو آپ کو قدیم ڈی این اے سے اس کی نسل کو دوبارہ پیدا کرتا ہو’
طویل عرصے سے معدوم انواع کے جینیاتی کوڈ کی تشکیل نو کی زیادہ تر کوششیں اس حقیقت کی وجہ سے ناکام ہوجاتی ہیں کہ ڈی این اے نازک ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ٹوٹ جاتا ہے لیکن میلبورن کے ایک عجائب گھر میں الکوحل میں محفوظ ایک 108 سال پرانے نمونے سے ٹیم کو تھیلاسین (تسمانیئن ٹائیگر) کے ڈی این اے کی ترتیب درست حالت میں مل سکتی ہے، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اس کا ڈی اینے 99.9 فیصد اصل ہے۔
یہاں تک کہ سائنسدان ان نمونوں سے ڈی این اے سے بھی زیادہ نازک آر این اے مالیکیولز نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سائنسدانوں نے آکلینڈ اسپتال میں’ انجیوڈیما ‘ کا کامیاب علاج ڈھونڈ لیا
میلبورن یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو پاسک نے کہا کہ اس بات پر بھی تحقیق جاری ہے کہ نئے پیدا ہونے والے تسمانیئن ٹائیگر کیا کھا سکتا ہے، اس کی زبان کا ذائقہ کیا ہوسکتا ہے، یہ کیا سونگھ سکتا ہے، اس کی بصارت کیسی ہے اور یہاں تک کہ اس کا دماغ کیسے کام کرتا ہے۔
پروفیسر اینڈریو پاسک کے مطابق ماہرین کی معدوم جانور کے جینز کو قریب ترین زندہ رشتہ دار میں موافقت کرتے ہیں، تسمانیئن ٹائیگر کے جین کا اصل ہونا اسے دوبارہ زندہ کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔
سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ انسانوں میں استعمال ہونے والی تکنیکوں کی طرح انہوں نے لیبارٹری میں اگائے جانے والے ڈنارٹ خلیوں میں 300 سے زیادہ تھائیلسین سے ماخوذ جینیاتی ’ترامیم‘ کی ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کس طرح چھوٹے مرسوپیئل میں بیضے پیدا کرنا ہے اور اس کے رحم سے باہر اس کے ایمبریو کو بڑھانا ہے۔