سائنسدانوں نے پتھر کے دور کا ’میگا اسٹرکچر‘ دریافت کر لیا

پیر 1 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سمندر کی تہہ پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے پتھر کے دور کا ایک ایسا ’میگا اسٹرکچر‘ دریافت کیا ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کئی سو صدیاں پہلے پتھر کے دور کے انسان کا بنایا ہوا گمشدہ اسٹرکچر ہے۔

2021 کے موسم خزاں میں جیکب گیرسن ، جو اب لیبنیز انسٹی ٹیوٹ فار بالٹک سی ریسرچ میں ایک سمندری ماہر ارضیات ہیں، کیل یونیورسٹی میں ایک ہفتے کا فیلڈ کورس پڑھا رہے تھے کہ اسی دوران وہ اپنی کلاس کو بحیرہ بالٹک پر ایک تحقیقی جہاز پر لے گئے۔

گیرسن اوپن ایئر کلاس روم کو ترجیح دیتے ہیں ان کی کلاس ہر شام رات کی شفٹ کے دوران ہائی ریزولوشن پر سمندر کی تہہ کی شکل کا نقشہ بناتے تھے۔ جیرسن کہتے ہیں کہ ’عام طور پر اگر ہم کہیں جا کر یہ پیمائش کرتے ہیں تو ہمیں کچھ دلچسپ ملتا ہے۔

ایک رات، شمالی جرمنی کے ساحل کے قریب خلیج میکلن برگ میں، طالب علموں نے ایکو ساؤنڈرز پر فائرنگ کی اور سمندر کی تہہ کے ایک حصے کا نقشہ بنایا۔ گیرسن کہتے ہیں کہ ’اگلے دن، ہم نے ڈیٹا ڈاؤن لوڈ کیا تو ہم نے دیکھا کہ سمندر کی تہہ پر کچھ ہے۔اور  یہ جو کچھ بھی تھا بہت خاص تھا۔

اس سمندری فائر نے آدھے میل سے زیادہ لمبی پتھر کی دیوار کو ٹھوکر ماری جس کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ پتھر کے دور کی ہے – جو زمین پر اس طرح کے قدیم ترین میگا اسٹرکچرز میں سے ایک ہے۔

 پی این اے ایس میں شائع ہونے والی تحقیق میں، گیرسن اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ قدیم شکاری فن تعمیر کا یہ ٹکڑا ہرن کے شکار کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، ہم اسے 10،000 سے 11،000 سال پہلے رہنے والے قدیم شکاریوں کی شکار گاہ کہہ سکتے ہیں۔

بلنکروال منظر عام پر آ گیا

گیرسن بحیرہ بالٹک کی تہہ میں بکھری ہوئی چٹانوں اور پتھروں کو دیکھنے کا شدید اشتیاق رکھتے تھے جو ہزاروں سال قبل شمالی یورپ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کے بعد سامنے رہ گئی تھیں۔

گیرسن کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ نقشے میں کچھ ایسا ہے جو خاص ہے۔ یہ ایک پہاڑی تھی جو ایک میل کے دسویں حصے تک چلتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘میں نے سوچا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ چٹانیں ہیں، جن میں سے ایک دوسرے کے بغل میں لگی ہوئی ہیں۔

ایک سال بعد گیرسن، اس کے ساتھی اور طلباء کا ایک نیا گروپ اسی سائٹ پر واپس گیا۔ انہوں نے ایک کیمرہ نیچے اتارا اور اس بات کی تصدیق کی کہ یہ پہاڑی سلسلہ ہزاروں چٹانوں پر مشتمل ہے جو اوسطاً 1.5 فٹ اونچی دیوار کی شکل اختیار کرتی ہیں۔

گیرسن کا کہنا ہے کہ ’یہ عام طور پر چھوٹے پتھر ہوتے ہیں جیسے ٹینس یا فٹ بال کی گیند کا سائز۔ لیکن پھر کچھ جگہوں پر جہاں ہمارے پاس ایک بڑا پتھر ہے، دیوار کی سمت بدل جاتی ہے۔

گیرسن کو معلوم نہیں تھا کہ اس طرح کا ڈھانچہ، جسے محققین نے زیر آب ٹیلے کے طور پر ’بلنکر وال‘ کا نام دیا ، قدرتی طور پر کیسے بن سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ جب ہم آثار قدیمہ کے ماہرین کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ آپ کو شاید کوئی بہت اہم چیز ملی ہے۔

کیل یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ بیریٹ ایرکسن  کہتے ہیں کہ میں شاید پوری ٹیم میں سب سے زیادہ شکوک و شبہات کا شکار تھا، جو 10 سے 20 ہزار سال قبل آخری برفانی دور کے بعد شمالی یورپ پہنچنے والے لوگوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے جا رہا تھا۔

ایرکسن نے اعداد و شمار کا جائزہ لیا اور تیزی سے اس بات کا یقین ہو گیا کہ یہ ڈھانچہ قبل از تاریخ کے انسانوں نے بنایا تھا جنہوں نے بڑی غیر منقولہ چٹانوں کو دیوار سے جوڑنے کے لیے بہت سارے چھوٹے پتھروں کا استعمال کیا تھا۔

ایرکسن کے علاوہ اس منصوبے پر کام کرنے والے دیگر ماہرین آثار قدیمہ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اس دیوار کو ممکنہ طور پر 10،000 سے 11،000 سال پہلے پتھر کے دور میں شکاری شکار گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے تاکہ وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہرنوں کو پالنے اور شکار کرنے میں مدد حاصل کر سکیں۔

پتھر کے دور میں سینکڑوں ہرن کا شکار کیسے کریں

ایرکسن کہتے ہیں کہ ان دیواروں کی ایک طرف خشک اور دوسری طرف پانی ہوتا۔ لہٰذا ہرن دیوار اور پانی کے درمیان پھنس جاتا، جس کی وجہ سے انتظار میں پڑے شکاری ہرن پر تیر فائر کر سکتے تھے۔

ایرکسن کا کہنا ہے کہ یہ قدیم لوگ خانہ بدوش تھے، لیکن اس دیوار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس باقاعدگی سے نقل مکانی کا راستہ تھا، جو انہیں ہر سال اس مقام پر واپس لاتا۔

ایرکسن کہتی ہیں کہ ‘اگر آپ اس طرح کا ڈھانچہ بناتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ایسے شخص ہیں جو پورے علاقے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ صرف ایک نامعلوم منظر نامے کے ارد گرد نہیں گھوم رہے ہیں،آپ پر امید ہیں کہ آپ کو اس دن ہرن مل جائے گا۔ آپ منصوبہ بندی کرتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ ہرن اگلے سال کہاں آئے گا۔

یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس پر ماہرین آثار قدیمہ کچھ عرصے سے تحقیق کر رہے تھے، لیکن ایرکسن کہتی ہیں کہ یہ دیوار اس بات کی تصدیق کرنے میں مدد دیتی ہے کہ یہ تاریخی یورپ میں سچ ہو سکتا ہے۔

کیوں کہ اس علاقے میں سیلاب آ گیا ، جس نے بحیرہ بالٹک تشکیل دیا جسے ہم آج جانتے ہیں اور اس پانی نے شکار کے فن تعمیر کے اس ٹکڑے کو پانی کے نیچے ڈبو دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp