سوشل میڈیا کے انقلاب نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اب لوگ روایتی میڈیا چھوڑ کر سوشل میڈیا سے خبریں اور معلومات حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر اس کے فوائد کے ساتھ کچھ لوگوں نے جعلی اور جھوٹی خبریں پھیلا کر اپنی آمدن کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ فیک نیوز نے عوام میں ایک عجیب اضطراب پیدا کر رکھا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام کا تعلیمی معیار انتہائی پستی کا شکار ہے، وہاں لوگ کسی بھی خبر کو پھیلانے سے پہلے تصدیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ یوٹیوبرز اپنے ویوز کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:المیہ
ایسا ہی کچھ لاہور میں ہوا، جہاں نجی کالج کی ایک طالبہ سے زیادتی کی جعلی خبر کو ایسے اچھالا گیا کہ پورے پنجاب میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔ زیادہ تر طلبا کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ کیوں مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے پولیس سے تمام کارروائی مکمل کروا کر لاکھ وضاحتیں دیں کہ یہ واقعہ پیش نہیں آیا مگر صوبے بھر میں مظاہروں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ آخر کار حکومت کو پنجاب میں تمام تعلیمی ادارے ایک روز کے لیے بند کرنا پڑے۔ بعض امتحانات بھی منسوخ کر دیے گئے۔
حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والے نسلی فسادات نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئیں اور سزائیں دی گئیں۔ سوشل میڈیا پر اُکسانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا گیا۔ اب برطانوی حکومت نے سوشل میڈیا قوانین کو مزید سخت کرنے کے لیے قانون سازی بھی کر دی ہے۔ جن پلیٹ فارمز پر نفرت انگیز اور تشدد پر اُکسانے والا مواد نظر آئے گا انہیں سخت جرمانے کیے جائیں گے۔
برطانیہ کی بڑی سیاسی جماعتوں نے ایسے طریقے سے ترامیم کی ہیں کہ آزادی رائے بھی متاثر نہ ہو اور نسلی تشدد پر اُکسانے والے بچ بھی نہ سکیں۔ ایک مقامی تنظیم نے سروے کیا جس میں 66 فی صد بالغ افراد نے تائید کی کہ مجرمانہ رویے والا مواد لگانے والی کمپنیوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ حتیٰ کہ ’ایکس‘ کے مالک ایلون مسک نے فسادات کے دوران ایسی ٹویٹ کردی کہ برطانیہ میں سول وار ناگزیر ہو چکی، جس سے برطانوی حکومت بھی اضطراب کا شکار ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیں:دفاع اور معیشت
برطانیہ میں ہونے والے فسادات نے پوری دنیا کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا کہ کیسے سوشل میڈیا لوگوں کی زندگیوں کو خطرات میں ڈال سکتا ہے۔ برطانوی اداروں نے ’ایکس‘ پلیٹ فارم کو ان سب فسادات کا ذمہ دار ٹھہرایا، جہاں سب سے زیادہ جھوٹے دعوے، غلط معلومات اور نفرت انگیز مواد پھیلایا گیا۔ بہت سے ملکوں کی حکومتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک عرصے سے یہ معاملہ اٹھا رہی ہیں کہ بے لگام سوشل میڈیا پر جھوٹی اور نفرت انگیز معلومات سے معاشروں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر غلط اطلاعات سے بگاڑ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
پنجاب میں ہونے والے تشدد آمیز مظاہرے حکومت اور سول سوسائٹی کی آنکھیں کھولنے کے کافی ہیں۔ حکومت اور اداروں کو سوشل میڈیا کے ذریعے غلط اور جھوٹی معلومات پھیلا کر نوجوانوں کو اُکسانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرکے ایک مثال قائم کرنا ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:حماقتیں کب ختم ہوں گی؟
یہ سلسلہ نیا نہیں۔ اس سے قبل بھی سوشل میڈیا پر لوگوں، خاص طور پر خواتین کی عزتیں اچھالی گئیں۔ مگر شاید ہی کوئی کارروائی کی گئی ہو۔ چند ایک کیسوں میں ایف آئی اے نے شکایات کی بنیاد پر کچھ افراد کے خلاف کارروائیاں کیں۔ مگر جس پیمانے پر پنجاب بھر میں جعلی ریپ کی خبر سے تباہی مچائی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر اس مرتبہ نرمی برتی گئی تو اگلی مرتبہ شاید اس سے بھی زیادہ خوفناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔ یہی وقت ہے کہ اس میں ملوث تمام لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔