حکومت نے بالآخر 26ویں آئینی ترمیم سینیٹ میں پیش کردی جو 65 ارکان کی حمایت کے ساتھ سینیٹ میں منظور کرلی گئی ہے، جبکہ 4 ارکان نے ترمیم کے خلاف ووٹ دیا، اپوزیشن سے جے یو آئی کے 8 اور بی این پی مینگل کے 2 سینیٹرز سے حکومت آئینی ترمیم کے لیے مطلوبہ نمبرز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے گنتی کی گئی جس کے بعد 4 سینیٹرز نے کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور آئینی ترمیم کی شقیں متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔
سینیٹ اجلاس چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت شام ساڑھے 5 بجے کے قریب شروع ہوا، اجلاس کے لیے سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے، کسی بھی مہمان کو گیلری میں بیٹھنے کی اجازت نہ دی گئی جبکہ میڈیا کو بھی گیلری سے فون سے ویڈیوز بنانے سے روکنے کے لیے سیکیورٹی اہلکار موجود رہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ہمیں حق حاصل نہیں کہ شفاف قانون سازی کریں؟ شیری رحمان کا سینیٹ میں اظہار خیال
اجلاس میں سینیٹرز کے علاوہ وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ، وفاقی وزرا اور اٹارنی جنرل آف پاکستان بھی موجود رہے، جبکہ بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل کچھ دیر گیلری میں ہی بیٹھ کر ایوان کی کارروائی دیکھتے رہے۔
بی این پی مینگل کے 2 سینیٹرز نسیمہ احسان اور قاسم خان کو بھی اجلاس میں لایا گیا، نسیمہ احسان سے ان کی نشست پر جاکر ان کا حال احوال معلوم کیا گیا، نسیمہ احسان اجلاس کے دوران تواتر سے تسبیح پر ورد کرتی رہیں، جبکہ قاسم خان کو وہیل چیئر پر ایوان تک لایا گیا اور چیئرمین سینیٹ نے ان کو ہدایت کی کہ آپ بس ایک مرتبہ کھڑے ہو کر ووٹ دے دیں، اس کے بعد بس آپ ہاتھ کھڑا کر کہ اپنا ووٹ دے دیں، سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر کی ساتھ والی نشست پر بیٹھے رہے۔
آغاز میں ہی سینیٹر عرفان صدیقی نے سوالات کا سیشن مؤخر کرنے کی استدعا کی جس کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو آئینی ترمیم کی تیاریوں اور نکات سے آگاہ کیا، نماز مغرب کا وقت ہوا تو جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹرز نے اجلاس میں نماز کا وقفہ کرنے کی استدعا کی جس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جس نے نماز پڑھنی ہے پڑھ آئے۔
جے یو آئی سینیٹر نے کہا کہ سب مسلمان ہیں جس پر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سب چلے جائیں، بعد ازاں اجلاس میں پانچ منٹ کا وقفہ کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں احتجاج سے ایک دن قبل عمران خان نے بیرسٹر علی ظفر کو کیا پیغام دیا؟
سینیٹر راجہ ناصر عباس نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اختر مینگل سے پوچھا کہ آپ کیوں آئے ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ میں اپنے 2 سینیٹرز کو دیکھنے آیا ہوں، اس طرح اغوا کر کے ترامیم کرنا درست نہیں ہے، راستے بند کر کے اراکین پارلیمنٹ کو اغوا کر کے کیسی ترامیم کرنا چاہتے ہیں، پارلیمان کو عوام کا اعتماد بھی حاصل کرنا چاہیے، ہمیں فرد واحد کے لیے نہیں عوام کے لیے آئین میں ترمیم کرنی چاہیے۔
آئینی ترمیم کے لیے ووٹنگ سے قبل پہلے ن لیگی سینیٹر انوشہ رحمان گنتی کرتی رہیں اور کاغذ پر لکھتی رہیں، پھر محسن نقوی اور اعظم نذیر تارڑ کھڑے ہو کر اپنی گنتی پوری کرتے رہے، پی ٹی آئی سینیٹر عون عباس بھی گنتی کررہے، انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کی حمایت کرنے والے 62 ارکان موجود ہیں، حکومتی ارکان نے کہا کہ 3 آپ کے بھی ہیں ٹوٹل 65 ہیں۔
جبکہ مخالف ووٹ کے وقت صرف 4 سینیٹرز اپنی نشست پر کھڑے ہوئے تو حکومتی ارکان نے نعرے لگائے ایک، 2، 3، 4 ، ایک، 2، 3، 4۔
آئینی ترمیم پیش کرنے سے قبل ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے مسودے میں حکومت اس ترمیم کے ذریعے آئین کو کالے سانپ سے ڈسنے جا رہی تھی، ہم جمیعت علمائے اسلام کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ان تجاویز کو روکا۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس آئین کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں، ان کو اس آئینی ترمیم میں کوئی کالا سانپ ’ناگ‘ نظر نہیں آرہا، ہم ناگ کے سامنے بین نہیں بجاتے، پیپلز پارٹی ہمیشہ فخر کے ساتھ سیاست کرتی ہے، سیاست گلی کا کچرا یا کوئی گندا لفظ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور
جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عطا الرحمن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا کہنا صحیح ہے، پہلا جو مسودہ تھا اس میں کالا سانپ تھا، ہماری جماعت نے اس کالے سانپ کے دانت توڑ کر باہر نکال دیے، جب ٹوٹ جاتا ہے تو پھڑک جاتا ہے، آج کچھ لوگ اسی طرح پھڑک رہے ہیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ میں نے بھی شیش ناگ پر بات کرنا تھی لیکن وقت کم ہے،ووٹنگ کرا لی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔