جسٹس یحییٰ آفریدی نئے چیف جسٹس آف پاکستان نامزد

منگل 22 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے دوتہائی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو نیا چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کر دیا ہے،پاکستان تحریک انصاف نے 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا تھا تاہم باقی 9 ارکان میں سے 8 نے جسٹس یحییٰ کے حق میں ووٹ دیا، جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے جسٹس یحییٰ کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔

26 ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کا طریقہ کارتبدیل ہو گیا ہے، جس کے مطابق خصوصی پارلیمانی کمیٹی نئے چیف جسٹس کے نام کواسپیکرقومی اسمبلی کے پاس بھیجے گی جہاں سے اسپیکر قومی اسمبلی صدرکوایڈوائس کے لیے نئے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام کی سمری وزیراعظم پاکستان کو بھجیں گے، وزیراعظم پاکستان حتمی منظوری کے لیے صدرمملکت کوایڈوائس بھیجیں گے۔

منگل کو اڑھائی گھنٹے تک جاری رہنے والے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے طویل مشاورت کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا نیا چیف جسٹس نامزد کردیا ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کثرت رائے سے نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام کے انتخاب کے فصیلے سے وزیراعظم کو آگاہ کرےگی۔ وزیر اعظم شہباز شریف  نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی کے لیے اپنی ایڈوائس صدر مملکت آصف علی زرداری کو تھوڑی دیر میں بجھوا دیں گے۔

انہوں نے کہا بتایا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری وزیراعظم کی ایڈوائس کی توثیق کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس کی تقرری کی حتمی منظوری دیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ جسٹس یحییٰ کو چیف جسٹس آف پاکستان کے لیے دو تہائی اکثریت کے ساتھ نامزد کیا گیا ہے، تاہم 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے 3 ارکان شریک نہیں ہوئے اس طرح کمیٹی کے 9 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ لیا جن میں سے میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس وقفے کے بعد شروع ہوگیا۔ وفاقی وزیراحسن اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ نئے چیف جسٹس کا نام ایک گھنٹے تک فائنل ہو جائے گا۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہم نے پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کو چیف جسٹس کی تقرری کے لیے مشاورت میں شامل کرنے کی حتی الامکان کوشش ہے، ہمیں دو تہائی اکثریت حاصل ہے اس لیے کمیٹی آج ہی چیف جسٹس آف پاکستان کے نام کا فیصلہ کرے گی۔

منگل کو پاکستان تحریک انصاف کے چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تشکیل دی گئی پارلیمانی خصوصی کمیٹی میں عدم شرکت پر پی ٹی آئی کے اراکین کو منوانے کی کوشش کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ پہلے ہم نے اسپیکر کے ذریعے پی ٹی آئی کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔

انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے شرکت سے معذرت کر لی ہے، کوئی بھی ممبراگرکمیٹی کا چیئرمین بن جائے تو وہ ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتا، اس لیے ایڈیشنل سیکرٹری پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کو چیئر کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:دو تہائی اکثریت حاصل ہے، نئے چیف جسٹس کے نام کا فیصلہ آج ہی کیا جائےگا، احسن اقبال

احسن اقبال نے بتایا کہ کمیٹی کا کوئی بھی چیئرمین یا کنوینرنہیں ہے، کمیٹی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذریعے آج ہی چیف جسٹس آف پاکستان کا نیا نام وزارت پارلیمانی امور کو بجھوا دے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں دو تہائی اکثریت سے فیصلہ کرنا ہے، مطلوبہ تعداد پوری ہے، ہم نے پی ٹی آئی ارکان کو مشاورت میں شامل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اس لیے کمیٹی چیف جسٹس آف پاکستان کے نام کا آج ہی فیصلہ کرے گی۔ ادھر کمیٹی ارکان نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اس عمل میں شامل نہیں ہونا تھا تو ارکان کے نام کمیٹی کے لیے کیوں دیے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل سنی اتحاد کونسل کے 3 ارکان کی عدم شرکت کے باعث ساڑھے 8 بجے تک ملتوی کردیا گیا تھا، اس دوران سنی اتحاد کونسل کے ارکان کو کمیٹی کے اجلاس میں شریک کرنے کی سرتوڑ کو شش کی گئی۔ تاہم بیرسٹر گوہر خان نے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے ملاقات میں انہیں واضح طور پرآگاہ کردیا کہ پارٹی نے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے لیے نامزد پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے اجلاس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں:مولانا فضل الرحمان کا اسد قیصر سے رابطہ، خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں شرکت کی درخواست

منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تشکیل پانے والی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے 3 ارکان کو بھی شامل کیا گیا تھا، ان اراکین میں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان، بیرسٹرعلی ظفر اور حامد رضا شامل تھے۔

سیاسی کمیٹی کا فیصلہ ہے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے، بیرسٹر گوہر خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہر خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی، یہ پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا فیصلہ ہے کہ ہم شرکت نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے مجھے بلایا، اس دوران احسن اقبال اور کامران مرتضیٰ بھی شریک تھے، مولانا فضل الرحمان کا بھی پیغام ملا ہے کہ ہم پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوں لیکن ہم نے سب سے معذرت کر لی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا مؤقف واضح ہے کہ ہمارے لیے تمام جج صاحبان محترم ہیں تاہم آئین میں دی گئی پرووژن کے مطابق موسٹ سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس آف پاکستان تعینات کیا جائے چاہے وہ جسٹس منصورعلی شاہ ہوں یا کوئی بھی ہو۔

یہ بھی پڑھیں:چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے کمیٹی: ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی نے نام دیدیے

واضح رہے کہ پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس منگل کی شام شروع ہونے کے بعد اس وقت ملتوی کردیا گیا تھا جب سنی اتحاد کونسل کے تینوں ارکان اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، جس پرکمیٹی سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو اجلاس میں شرکت کے لیے راضی کرنے اور بات چیت کے لیے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کے بعد اجلاس رات ساڑھے 8 بجے تک ملتوی کر دیا تھا۔

پاکستان تحریک انصاف کو منوانے کے لیے تشکیل دی گئی 4 رکنی کمیٹی میں مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال ، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر، راجا پرویز اشرف اور ایم کیوایم کی خاتون رہنما رعنا انصارشامل تھیں۔

پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے تینوں ارکان سے رابطہ کرکے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں شرکت کے لیے تنیوں اراکین نے دو ٹوک اور حتمی فیصلہ کرتے ہوئے اجلاس میں شرکت کے لیے معذرت کر لی ہے۔

مزید پڑھیں:تحریک انصاف نے چیف جسٹس تقرری کی پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ کیوں کیا؟ اندرونی کہانی سامنے آگئی

واضح رہے کہ اس سے قبل جمعیت علمائے اسلام(جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما اسد قیصر سے رابطہ کر کے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی درخواست کی ۔

پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کی شکار ہے، عطا تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم ایک تاریخی کام ہے جس سے عوام کو فوری انصاف ملے گا۔ پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کی شکار ہے۔ ترمیم سے 2 شقیں پی ٹی آئی کے کہنے پر نکالی گئیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراطلاعات عطاتارڑ نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم جلدبازی میں نہیں کی گئی بلکہ اس ترمیم میں 2 سے ڈھائی ماہ لگے۔ یہ ترمیم اتفاق رائے سے کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم پراتفاق رائے چاہتے ہیں،ایسا نہ ہوا تو دوسرے آپشنز استعمال کریں گے، عطا تارڑ

انہوں نے کہا کہ  پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان نے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ ترمیم سے متعلق 90 فیصد تحفظات کو دور کرلیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی ارکان نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ آئینی ترمیم کے 90 فیصد نکات پر مکمل اتفاق ہوگیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اندرونی اختلافات کا شکار ہے، ایک گروپ اسمبلی کے اندر اور ایک باہر بیٹھا ہے۔ اسمبلی میں بیٹھے لوگ بات چیت میں اپنی مرضی سے شامل ہوئے۔ انہوں نے ایک ایک شق پر سودے بازی بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم اتفاق رائے سے کی گئی ہے۔ ترمیم سے 2 شقیں پی ٹی آئی کے کہنے پر نکالی گئیں۔ پی ٹی آئی نے مسودے کو متفقہ قرار دیتے ہوئے اس میں اپنی تجاویز بھی شامل کی تھی۔

عطاتارڑ نے کہا کہ اگر کوئی ضمیر کی آواز پر آیا ہے تو اسمبلی میں بیٹھے تمام لوگوں نے اسے دیکھا ہے، انہوں نے اپنی مرضی سے ووٹ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اپنی اندرونی لڑائی حل کرے اور اس کی ذمہ داری پارلیمان اور اسپیکر پر عائد نہ کرے۔ اگر پی ٹی آئی کو اعتراض تھا تو اس مسودے پر ہامی نہ بھرتی اور بار بار جے یو آئی سربراہ کے پاس نہ جاتی۔ پی ٹی آئی میں موجود 4 گروپس کی لڑائی کی وجہ سے کچھ ممبران نے سب کے سامنے ووٹ دیا ہے۔

آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے ہمارے 2 لوگوں کو اٹھایا گیا، اختر مینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ  اختر مینگل نے کہا ہے کہ آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے ہمارے 2 لوگوں کو اٹھایا گیا۔ بچوں کو زدوکوب کرکے آئینی ترمیم منظور کرائی گئی۔

بی این پی کے سربراہ  اختر مینگل نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر قاسم رونجھو آج سینیٹ سیکرٹریٹ پہنچے اور استعفیٰ جمع کرایا۔ قاسم رونجھو اپنا استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔ ہمارے سینیٹر کو اجلاس میں اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنی آپ بیتی بیان کریں۔

یہ بھی پڑھیں: اختر مینگل کو سینیٹ گیلری سے کیوں نکالا گیا؟

اختر مینگل نے کہا کہ اس آئینی ترمیم پر حکومتی اتحاد بھی متفق نہیں تھا۔ کل اس ڈرامے کا آخری دن تھا۔ اس سرکس کو کیا نام دیں؟ زرداری کا سرکس، شریفوں کا سرکس یا آئی ایس آئی کا سرکس۔

بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ ترمیم کے لیے ہمارے دو لوگوں کو اٹھایا گیا۔ ہماری خاتون سینیٹر نے آنسو بہاتے ہوئے اپنی آپ بیتی سنائی۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کو چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟ بچوں کو زدو کوب کر کے آئینی ترمیم منظور کرائی گئی۔ جن لوگوں نے آئینی ترمیم منظور ہونے پر خوشی منائی، انہوں نے اپنی سیاسی  قبر کھودی ہے۔

تمام پارٹیاں کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرنا چاہیے، راجہ ناصر عباس

اختر مینگل کے ہمراہ مجلس وحدت المسلمین کے رہنما راجہ ناصر عباس نے کہا کہ وہ اختر مینگل کے ساتھ مذمت کرنے آئے ہیں۔

’ میں ممبران پارلیمان کو اٹھانے کی مذمت کرتا ہوں، تمام پارٹیاں کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرنا چاہیے، اس سارے واقعے پر کسی نے ایک لفظ تک نہیں کہا۔ ہم ظالم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہیں۔

چیف جسٹس کا تقرر: 8 ارکان فیصلہ کرسکتے ہیں، وفاقی وزیر قانون

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئین نے اختیار دیا ہے کہ 8 ارکان کمیٹی اجلاس میں بیٹھے ہوں تو وہ فیصلہ کرسکتے ہیں۔ آج کمیٹی کے اجلاس میں ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود تھی لیکن اس کے باوجود ہم نے کارروائی روک دی تاکہ پی ٹی آئی کے ارکان بھی شریک ہوسکیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا، اجلاس میں ڈپٹی سیکریٹری نیشنل اسمبلی موجود تھے جنہوں نے کمیٹی ارکان کے نام بھی پکارے۔ کمیٹی اراکین کی تعداد پوری نہیں تھی۔ صرف 9 ارکان موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 175 کے مطابق کمیٹی کے 8 ارکان یعنی دوتہائی اکثریت نے چیف جسٹس کی تعیناتی کا فیصلہ کرنا ہے۔ آئین میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی ویکنسی خالی رہ جاتی ہے یعنی کسی پارٹی کی جانب سے نامزدگی نہیں آتی یا کوئی رکن خود میٹنگ اٹینڈ نہیں کرتا تو اس کی وجہ سے کمیٹی کی کارروائی نہیں رکے گی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ آپ نے چیف جسٹس کی تعیناتی کرنی ہے، اگر دو، تین لوگ کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کرتے تو کمیٹی کی کارروائی نہ روکی جائے۔ کمیٹی میں ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود تھی، لیکن اس کے باوجود ہم نے اجلاس آگے کیا۔ ہم جمہوری لوگ ہیں، جمہوریت کا حسن اکٹھا ہونے میں ہے۔

انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے چیمبرز میں جائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اجلاس میں آئیں۔

یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم اور چیف جسٹس کی تعیناتی، تمام عمل غیرقانونی ہے، بیرسٹر گوہر

’آئین میں اختیار ہے کہ 8 ارکان کمیٹی اجلاس میں بیٹھے ہوں اور وہ اگر فیصلہ کردیں، لیکن جمہوری اصولوں کے تحت ہم نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ اجلاس میں آئیں، اب کمیٹی کا اجلاس رات8 بجے ہوگا۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی بار تشکیل دی گئی 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں شروع ہوا۔

حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان پر مشتمل پارلیمانی پینل کا ان کیمرہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس کے کمرہ نمبر 5 میں منعقد کیا جا رہا ہے۔

تاہم حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) کے ارکان اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں جس کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی نئے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے اتفاق رائے کی تلاش میں ہے۔ گزشتہ قانون کے تحت موجودہ چیف جسٹس کی جگہ سینیئر جج جسٹس منصورعلی شاہ خود بخود فائز ہو سکتے تھے۔

تاہم 26 ویں آئینی ترمیمی بل کے نفاذ کے بعد اس طریقہ کارکو تبدیل کردیا گیا ہے۔ آرٹیکل 175 اے کی شق 3 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے 3 سینیئرترین ججوں میں سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر 2 تہائی اکثریت کے ساتھ چیف جسٹس کا تقرر کیا جائے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ کے بعد جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی اگلے 2سینیئر ترین ججز ہیں۔

رجسٹرارسپریم کورٹ نے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی جانب سے کمیٹی کو 3 ججوں کے نام بھجوا دیے ہیں۔ چیف جسٹس کی نامزدگی سے متعلق کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کے لیے اراکین پہنچ گئے اور اجلاس شروع ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے 4 اراکین نے بائیکاٹ کیا اور اجلاس می شریک نہیں ہوئے، جس کے بعد اجلاس رات ساڑھے 8 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان کی تقرری کے لیے ہونے والے اجلاس کے لیے باٸیکاٹ کے باوجود سنی اتحاد کونسل کے تینوں اراکین کے لیے نشتیں لگائی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی کمیٹی سیکریٹریٹ کا اسٹاف بھی کمیٹی روم نمبر 5پہنچ گیا ہے، سیکریٹریٹ اسٹاف 26ویں آئینی ترمیم کی گزٹ کاپیاں بھی پہنچا دی گئی ہیں۔ کمیٹی کے رکن احسن اقبال نے کہا کہ چیف جسٹس کے لیے آج نام طے ہوجائے گا، اپنی مشاورت کریں گے اور پھر فائنل کریں گے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ابھی میٹنگ میں طے ہوجائے گا کہ کون چیف جسٹس ہوگا۔ جے یوآئی کے کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کوئی پتا نہیں کہ چیف جسٹس کون ہوگا، یہ بھی علم نہیں کہ آج طے ہوجائے گا یا نہیں۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام، سنی اتحاد کونسل اور ایم کیو ایم کی طرف سے کمیٹی کے لیے نام بھیجے جانے کے بعد ‏12 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔

خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری

نوٹیفکیشن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 175 اے کی شق (3B) کے تحت جاری کیا گیا ہے۔  نوٹیفکیشن کے مطابق خصوصی پارلیمانی کمیٹی درج ذیل ممبران قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہوگی۔

ممبران قومی اسمبلی خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، محترمہ شائستہ پرویز ملک، راجا پرویز اشرف، سید نوید قمر، محترمہ رانا انصار، گوہر علی خان، صاحبزادہ محمد حامد رضا کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔

ممبران سینیٹ سینیٹر فاروق حامد نائیک، سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، سینیٹر سید علی ظفر اور سینیٹر کامران مرتضیٰ بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:آئینی ترمیم سے سیاسی رہنماؤں کو کیا فائدہ ہوگا؟

پاکستان تحریک انصاف کا خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے مکمل طور پر الگ رہنے کا اعلان

پاکستان تحریک انصاف نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے مکمل طور پر الگ رہنے کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے ہونے والے اہم ترین اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے۔ اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں رائے شماری کے دوران پارٹی پالیسی کی خلاف ووٹ دینے والے اراکین کے خلاف فوری طور پر سخت کارروائی عمل میں لانے کی منظوری بھی دی گئی۔

آئینی ترمیم کو ووٹ دینے والے اراکینِ پارلیمان کی بنیادی جماعتی رکنیت کی منسوخی سمیت ان کے خلاف حتمی تادیبی کارروائی پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پارٹی سے روابط منقطع کرنے والے دیگر اراکین کو شوکاز نوٹسز کے اجرا کی بھی منظوری دی گئی۔

شوکاز نوٹسز کے ذریعے ان اراکینِ پارلیمان سے پارٹی سے روابط منقطع کرنے اور حکومتی حلقوں سے روابط قائم کرنے سمیت متعلقّہ معاملات کی خلاف ورزی پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کا کہا جائے گا۔ اراکین کے شوکاز نوٹس کے جوابات کی روشنی میں ان کے آئندہ کے مستقبل کا تعین کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے کمیٹی: ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یو آئی اور پی ٹی آئی نے نام دیدیے

یاد رہے کہ گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی نے چیف جسٹس کی نامزدگی کے حوالے سے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لیے چیئرمین سینٹ کو خط ارسال کیا تھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے چیف جسٹس کی نامزدگی کے لیے آئین کے آرٹیکل 175 اے کی شق 3 بی کے تحت قائم ہونے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لیے چیئرمین سینیٹ کو خط ارسال کیا، جبکہ سیکریٹری قومی اسمبلی نے اسپیکر کی ہدایت پر قومی اسمبلی میں موجود جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو خطوط ارسال کیے تھے۔

اسپیکر نے چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی کو لکھے گئے خط میں چیف جسٹس کی نامزدگی کے لیے قائم کی جائے والی پارلیمانی کمیٹی کے لیے سینیٹرز کے نام مانگے جبکہ سیکریٹری جنرل قومی اسمبلی نے اسپیکر کی جانب سے قومی اسمبلی میں موجود پارلیمانی رہنماؤں کو ممبران قومی اسمبلی کے نام مانگے گئے تھے۔

یہ بھی دیکھیے آئینی ترمیم کے بعد نئے چیف جسٹس کا انتخاب کون کرے گا، طریقہ کار کیا ہوگا؟

سپیکر نے خط آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 3 بی کے تحت لکھے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 175اے کی شق 3 بی کے تحت قائم ہونے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججوں میں سے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان کا انتخاب کرے گی۔

آئین کے آرٹیکل 175 اے کی شق 3 بی کے تحت قائم کی جائے والی پارلیمانی کمیٹی 4 سینیٹرز اور 8 ممبران قومی پر مشتمل ہو گی۔کمیٹی میں سینٹ اور قومی اسمبلی میں موجود جماعتوں کو ان کے اراکین کے تناسب سے نمائندگی دی جائے گی۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے چیئرمین سینیٹ جبکہ سیکرٹری جنرل قومی اسمبلی نے مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، سنی اتحاد کونسل اور ایم کیو ایم  کے پارلیمانی رہنماؤں کو خطوط ارسال کیے۔ خطوط میں خصوصی کمیٹی کے قیام کے لیے پارلیمانی رہنماؤں کو اپنے ممبران کے نام بھیجنے کا کہا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp