26 ویں آئینی ترمیم کا اعصاب شکن معرکہ سر کرنے کے باوجود آئینی بینچ کی تشکیل کی راہ قانونی سقم نے روک لی۔
ماہرقانون کے مطابق آئینی بینچ کی راہ میں حامل قانونی سقم دور کرنے کے لیے آئین میں ایک اور ترمیمی مرحلے سے گزرنا ہوگا، جس کے بعد ہی آئینی بینچ حقیقت کا روپ اختیار کرسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:وکلا نے آئینی ترمیم کے خلاف کمر کس لی، بڑا اعلان کردیا
پاکستانی انگریزی روزنامے میں شائع معروف صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سابق اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ سنگین خامی کے سبب نہ تو نیا جوڈیشل کمیشن بن سکتا ہے اور نہ ہی آئینی بینچ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے 27ویں ترمیم کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔
رپورٹ کے مطابق سابق اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ اس قانونی پیچیدگی کی وجہ سے اس وقت تک پرانے بینچ ہی کام کریں گے کوئی آئینی بینچ نہیں بنے گا۔
سابق اٹارنی جنرل کے مطابق اعصاب شکن 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے باوجود اس ترمیم میں ابہام اور اغلاط موجود ہیں۔ نومنظور شدہ ترمیم مین پائی جانے والی خامیوں کے حوالے سابق اٹارنی جنرل کے مطابق آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی بینچوں میں نامزدگی اور تعین جوڈیشل کمیشن کے ذمہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم نہیں مانتے، پورے ملک میں احتجاج کریں گے، علی امین گنڈاپور
ان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 175A(1) کے تحت جوڈیشل کمیشن میں آئینی بینچوں کے موسٹ سینیئر جج یا ججز کو شامل کرنا ضروری ہے، جب کہ ابھی یہ مرحلہ باقی ہے۔
ان کہنا ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ آئینی بینچز کے جن سینیئر ترین جج یا ججز کا تقرر ہونا ابھی باقی ہے وہ جوڈیشل کمیشن کے ممبر ہوں گے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق یہ ایک بڑی خامی ہے، جس کی وجہ ہی اس شق میں ترمیم کے لیے اب 27ویں آئینی ترمیم ضروری ہے، اس کی عدم مںظوری کی صورت میں کسی نئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور کسی آئینی بینچ کا تقرر ممکن نہیں۔
دوسری طرف سابق اٹارنی جنرل کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اگر موسٹ سینیئر ججز کو آئینی بینچ اور جوڈیشل کمیشن کے ممبران کے طور پر نامزد کیا جاتا ہے تو پھر کسی ترمیم کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق زیر بحث مختلف شقوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم: مولانا فضل الرحمان نے ملک و ملت کی عظیم خدمت کی، مفتی تقی عثمانی
جسٹس وجیہہ الدین احمد کی طرح سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر بھی آئینی سقم والی بات سے متفق نہیں ان کے مطابق اگر آئینی بینچ کی تشکیل کے لیے جوڈیشل کمیشن کے 2 یا 3 ارکان دستیاب نہ ہوں تو دستیاب ارکان آئینی بینچز کا فیصلہ کر سکتے ہیں، اس کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔