سپریم کورٹ آف پاکستان کے 30ویں چیف جسٹس نامزد ہونے والے جسٹس یحییٰ آفریدی کا تعلق خیبر پختوںخوا کے ضلع کوہاٹ سے ہے۔ ان کا آبائی گاؤں کوہاٹ کا مضافاتی علاقہ بابری بانڈہ ہے جو کوہاٹ شہر سے 15 کلومیٹر دور شمال کی جانب واقع ہے۔
بابری بانڈہ کے عمائدین نے وی نیوز سے خصوصی بات چیت کے دوران بتایا کہ ان کا خاندان بابری بانڈہ میں ہی سکونت اختیار کیے ہوئے ہے تاہم جسٹس یحییٰ آفریدی کی پیدائش ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئی تھی۔
آپ 23 جنوری 1965 کو پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔ گورنمٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی جبکہ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے کامن ویلتھ اسکالرشپ پر جیسس کالج کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کی ڈگری بھی حاصل کی۔
ان کے رشتہ داروں کے مطابق جسٹس یحیٰی آفریدی 3 بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ ان کے 3 بیٹے ہیں اور تینوں شادی شدہ ہیں۔ چھوٹے بیٹے کی شادی سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا امیر حیدر خان ہوتی کی بیٹی سے ہوئی ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بیٹوں کی شادی اپنے گاؤں میں علاقائی روایات کے عین مطابق کی۔
یونین کونسل بابری بانڈہ کے چیئرمین اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے کزن طارق محمود آفریدی نے بتایا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی مہینے میں دو، تین بار اپنے گاؤں ضرور آتے ہیں اور اپنے حجرے میں علاقہ مکینوں، رشتہ داروں اور مشران سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
طارق آفریدی کے مطابق جسٹس یحییٰ آفریدی علاقے کے اجتماعی مسائل کے حل پر بھی توجہ دیتے ہیں اور نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نامزد چیف جسٹس اپنے گاؤں میں سینکڑوں درخت بھی لگا چکے ہیں جبکہ کھیتی باڑی کا شوق ہونے کی وجہ سے باقاعدگی کے ساتھ اپنی زمینوں کا چکر بھی لگاتے ہیں۔
یاد رہے کہ جسٹس یحییٰ نے سنہ 1990 میں ہائیکورٹ کے وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی تھی اور 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر وکالت کا آغاز کیا تھا۔
انہوں نے خیبر پختونخوا کے لیے بطور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بھی خدمات سرانجام دیں۔ وہ سنہ 2010 میں پشاور ہائیکورٹ کےایڈیشنل جج مقرر ہوئے جبکہ 15 مارچ 2012 کو مستقل جج مقرر ہوئے۔
30 دسمبر 2016 کو جسٹس یحییٰ آفریدی نے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ 28 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلیٰ عدلیہ میں مختلف مقدمات کی سماعت کی اور کئی لارجر بنچز کا حصہ بھی رہے جن میں سب سے اہم مخصوص نشستوں سے متعلق کیس شامل ہے جس میں انہوں نے کیس سے متعلق فیصلے میں اپنا اختلافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ کا حصہ بھی رہے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس 2024 کی 3 رکنی ججز کمیٹی میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ ایک ہی لا فرم میں شراکت دار رہ چکے ہیں۔ ان تینوں نے مل کر 1997 میں ایک لاء فرم ’آفریدی، شاہ اینڈ من اللہ ‘ کی بنیاد رکھی تھی۔