اسلام آباد میں جرائم کی شرح میں ایک بار پھر اضافہ ہو رہا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق شہر میں رواں برس کے پہلے 8ماہ کے دوران 117افراد قتل ہوئے۔ راہزنی، چوری اور ڈکیتی کے 3ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ 12شہری ڈکیتی مزاحمت پر جاں بحق ہوئے۔
اسی عرصے میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر کے 38واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، اس کے علاوہ جنوری سے اگست تک 338گاڑیاں 2800 کے قریب موٹر سائیکل چوری ہوئے۔ دوسری جانب اسلام آباد پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس جرائم کے کیسز کم رپورٹ ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: کرائم فری وادی ہنزہ میں کون سا جرم سر اٹھانے لگا؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام واقعات کی ایف آئی آرز درج کی جا رہی ہیں، تفتیش کو مزید بہتر بنانے کے لیے الگ انوسٹی گیشن ونگ قائم کیا گیا ہے۔ انچارج انوسٹی گیشنز تعینات کیے گئے ہیں، جس میں تجربہ کار آفیسرز تعینات ہیں، تاکہ ان واقعات کو جتنا جلدی ممکن ہو کم کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سب انسپکٹر حیدر علی شاہ نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے شہید ہوچکے ہیں۔
اعدادوشمار سے اس چیز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہر بھر میں مختلف جرائم کی شرح بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
شہری خاص طور پر شہر میں قتل کے واقعات کی وجہ سے زیادہ خوف کا شکار ہیں۔ اسلام آباد میں جرائم اور خاص طور پر قتل کے واقعات بڑھنے کی وجہ کیا ہے، اس حوالے سے شہریوں سے سے بات چیت بھی کی گئی۔
سیکٹر ایچ 13 کے ایک رہائشی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیکٹر میں چوری، راہزنی کے واقعات ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کی پولیس ان کے ساتھ خود ملوث ہوتی ہے۔
اپنے تجربے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چند مہینے قبل رات 12بجے وہ اپنی ڈیوٹی سے جب واپس آ رہے تھے تو ان کے پیچھے 3موٹر سائیکل سوار تھے۔ جو لوٹنے کے چکر میں تھے، چونکہ وہ خود ایک ایسے ادارے سے منسلک ہیں، اس لیے ان کو پہچان چکے تھے۔
یہ پڑھیں: گزشتہ ایک ماہ میں سنگین جرائم میں ملوث 44 گینگز کے 102 ملزمان گرفتار کیے گئے، آئی جی اسلام آباد
انہوں نے بتایا حالانکہ سڑک کے شروع میں پولیس کی گاڑی بھی کھڑی تھی، اس کے باوجود وہ موٹر سائیکل سوار ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کے گھر تک پہنچ گئے، موٹر سائیکل سوار جب یہ جان چکے کہ اب شکار اپنے گھر داخل ہوچکا ہے اور ان کا پلان فلاپ ہو چکا ہے، تو وہ اسی سڑک پر منڈلانے لگے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب وہ گھر سے دوبارہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ نکلے تو وہی لوگ دوبارہ ان کے پیچھے لگ گئے، اس دوران انہوں نے سڑک کے بیچ شور کیا تو وہ سمجھ گئے کہ یہاں دال نہیں گلنے والی تو وہ بھاگ گئے۔
’اس 4 فٹ کی روڈ پر پولیس گاڑی ہونے کے باوجود بھی انہیں کوئی ہوش نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ جب میں نے ان کو قریب جا کر سارا قصہ سنایا تو کہنے لگے ہمیں پتا نہیں چلا، جہاں اس قسم کے لوگ ہوں، وہاں کون محفوظ ہوگا‘۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اس آڑ میں ہوتے ہیں کہ چوری ڈکیتی میں ان کے بھی مزے ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص اسی وقت دلیری سے انہیں پکڑ لے تو یہی پولیس کریڈٹ خود لے جاتی ہے کہ فلاں بندے کو ڈکیتیی یا چوری کی واردات میں پکڑا جا چکا ہے۔
’چند دن قبل اسی علاقے میں بوری میں بند لاش ملی، جس کے بعد علاقے میں اتنا خوف ہے کہ کوئی اس حوالے سے بات تک نہیں کر پا رہا‘۔
رواں ہفتے کے دوران سوشل میڈیا کے ذریعے شہریوں کی جانب سے لوٹے جانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جس میں ایک خاتون کو دن دیہاڑے بلیو ایریا میں گن پوائنٹ پر لوٹا گیا، جبکہ ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ بھی کہا گیا کہ لوگ کھڑے دیکھتے رہے اور پولیس 45 منٹ کے بعد آئی۔
مزید ایک شہری روہان قادری نے اپنے ساتھ ہونے والے واقعہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ تقریباً سیکٹر ایف 7 سے آئی 8 جا رہے تھے کہ انہوں نے آئی ایٹ میں داخل ہونے والے راستے سے پہلے ہی غلطی سے رانگ ٹرن لے لیا اور جب وہ اپنی گاڑی کو رانگ ٹرن سے دوبارہ صحیح راستے کی طرف موڑ رہے تھے کہ سامنے سے ایک موٹر سائیکل گاڑی کی طرف آتا دکھائی دیا۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے ایسے لگا جیسے وہ بھی غلطی سے یہاں مڑگئے ہیں، لیکن جب وہ گاڑی کے قریب آگئے اور ان میں سے ایک نے پستول میں گولیاں بھریں اور گاڑی کے اگلے شیشے پر رکھ دیں، تاکہ گاڑی روک دوں۔ جس کے بعد وہ ڈرائیور والے دروازے پر آیا اور اس نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ دوسرا شخص دوسرے دروازے والی سائیڈ چلا گیا اور کہنے لگا باہر نکلو۔
’چونکہ میرے ساتھ میرے 2 بچے بھی تھے، جس کی وجہ سے گاڑی کے دروازے پہلے ہی لاک تھے، میں حیران تھا اور دماغ میں بہت سی باتیں آرہی تھیں، ان کی گن کا رخ مجھ پرتھا۔ جب وہ دروازہ کھولنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو پتا نہیں مجھ میں اتنی ہمت کیسے آئی اور میں نے اپنی گاڑی وہاں سے بھگا لی۔ حتیٰ کے وہ میرے لیے کافی زیادہ خطرناک تھا، لیکن میں ان کی جانب سے اپنی بیوی اور بچوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے نہیں دے سکتا تھا۔ اس کے بعد میں نے اپنی گاڑی فیض آباد پر روکی، اور وہاں موجود ٹریفک اہلکار کو سارے معاملے سے آگاہ کیا‘۔
یہ بھی پڑھیں: تمام اقدامات کر لیے ہیں،غیر ملکیوں سمیت عام شہریوں کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گے، آئی جی اسلام آباد
انہوں نے مزید بتایا کہ پتا نہیں وہ گاڑی فون یا پھر کیا چاہتے تھے، لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ وہ گاڑی چھیننا چاہتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ واقع 7بج کر 20منٹ پر ہوا۔ جو ایسا وقت ہے کہ گاڑیاں، لوگ، اور موٹر سائیکلوں نے سڑکوں پر رش کیا ہوتا ہے۔
برسوں سے کرائم رپورٹنگ کرنے والے صحافی اسرار احمد راجپوت نے اسلام آباد میں قتل کی وارداتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی وجہ ملک میں بڑھتی افراتفری، لاقانونیت، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام ہے، اور پولیس خود بھی سیاست کی نظر ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چیلنز پر سیاسی جماعتوں کے جھگڑے دیکھ دیکھ کر عوام عدم برداشت کا شکار ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس ساری صورتحال میں عوام اس قدر پریشان ہے کہ کوئی کسی کی بات برداشت ہی نہیں کرتا اور جہاں تک پولیس کی بات ہے ان کے اعلیٰ عہدیدار سیاست کی نظر ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے نیچلے درجوں پر کام کرنے والے پولیس اہلکار اپنی مرضی کرتے ہیں اور رشوت کھاتے ہیں۔ لوگوں سے نا انصافیاں کرتے ہیں اور جب تھانوں اورعدالتوں میں لوگوں کو انصاف نہیں ملتا تو لوگ خود بدلا لینے لگتے ہیں۔