سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پرسنل سیکریٹری رہنے والے محمد مشتاق نے صحافیوں کو بے چارہ قرار دیتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
سوشل میڈیا پر اپنے ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور سے پہلے جب عدالتی کارروائی براہِ راست نشر نہیں ہوتی تھی تو عدالتی رپورٹرز کا کام بہت اہم تھا کیونکہ عام لوگوں کو عدالتی کارروائی کے متعلق وہی بتاتے تھے کہ اندر کیا بحث چل رہی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد عدالتی کارروائی براہِ راست نشر ہونے سے بعض رپورٹرز کو یقیناً مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اب جو کچھ ہورہا تھا وہ سب کو براہِ راست نظر آرہا تھا، لیکن یہاں بھی کچھ رپورٹرز ایسے تھے جنہوں نے خود کو نئی صورتحال کے ساتھ ایڈجسٹ کرلیا اور انہوں نے کچھ نیا کردکھانے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں پی ٹی آئی کا 6 ججز کے خط پر عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا مطالبہ
’اس کچھ نیا کردکھانے کی کوشش میں سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اپنے ناظرین کو ’اندر کی خبر‘ دینے کے دعوے کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض رپورٹرز کو اس میں کامیابی ملی بھی اور بعض اوقات کوئی بات ہمارے علم میں نہیں ہوتی تھی لیکن کچھ رپورٹر اس کی خبر پہلے ہی سے دے دیتے‘۔
انہوں نے لکھا کہ بعض اوقات کوئی رپورٹر مجھ سے خبر لینے کی کوشش کرتا تو میں اس کو کہتا کہ یار آپ کو کچھ معلوم ہو تو مجھے بھی بتائیں، اور ایسی صورت میں بعض اوقات واقعی ایسا ہوا کہ کوئی خبر، بلکہ دستاویز جو ابھی چیف جسٹس کے آفس تک نہیں پہنچی ہوتی تھی وہ میرے اس طرح کے سوال پر کسی رپورٹر نے مجھے بھیج دی۔
محمد مشتاق لکھتے ہیں کہ ایسے رپورٹرز نے دوسرے رپورٹرز کےلیے مشکلات پیدا کرلیں کیونکہ اب اندر کی خبر نکالنے کی دوڑ شروع ہوگئی اور اس دوڑ میں بارہا ایسا ہوا کہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی، بلکہ پہلے خبر گھڑی گئی، پھر پھیلائی گئی، پھر کہا گیا کہ اگر جھوٹی خبر ہے، تو تردید کیوں نہیں کی جارہی، پھر اگر تردید بھی ہوئی تو کہا گیا کہ یہ تردید ناقابلِ قبول ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ایسا ہی ایک افسوس ناک واقعہ یہ ہے کہ جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کے خط کے بعد صورتحال بہت سنجیدہ ہوگئی تھی اور رپورٹر ’اندر کی خبر‘ کی کھوج میں لگ گئے، تو ایک رپورٹر نے خبر بریک کی کہ 5 جج چیف جسٹس کے دفتر میں پہنچ گئے ہیں اور وہ چیف جسٹس پر سوموٹو نوٹس لینے کےلیے دباؤ ڈال رہے ہیں، ایک رپورٹر نے تو چیف جسٹس کی اہلیہ کو بھی ججوں کی مشاورت میں شامل کرلیا۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے یہ خبر دیکھی، تو مذکورہ رپورٹر کو میسج کیا کہ میں دفتر میں ہوں اور یہاں نہ چیف جسٹس کی اہلیہ پائی جاتی ہیں، نہ ہی مذکورہ 5 جج موجود ہیں۔ جس پر اس نے کہا اچھا تو پھر ان کے ساتھ غیر رسمی مشاورت ہوئی ہوگی۔
’میں نے کہاکہ ایسی غیر رسمی مشاورت کا تو پھر آپ کو ہی علم ہوگا، لیکن آپ کی ٹوئٹ چیف جسٹس کے دفتر میں اس وقت جاری ملاقات کی بات بتارہی ہے، جس پر کوئی جواب نہ دیا گیا۔
انہوں لکھا کہ ایسے ہی ایک رپورٹر نے قاضی فائز عیسیٰ کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبر بریک کی، پھر کچھ عرصہ اس پر تردید کیوں نہیں کی جاتی کا سوال اٹھاتے رہے، پھر آخر کہہ دیا کہ نہیں ایکسٹینشن نہیں لے رہے، تب میں نے ایک دن انھیں کمرہ عدالت میں عدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل کہاکہ اتنا گھما پھرا کر اس حد تک آنے کے بجائے آپ مجھ سے پوچھ لیتے، تو میں آپ کو بتادیتا کہ میں نے بھی، اور قاضی صاحب کی اہلیہ نے بھی، آزادی کاؤنٹر رکھا ہے اور ہم ہر دن حساب رکھتے ہیں کہ 405 دنوں میں کتنے دن گزر گئے اور کتنے رہتے ہیں۔ اسے حیرت ہوئی، تو میں نے کہاکہ اگر آپ میری تعیناتی کا نوٹیفکیشن ہی دیکھ لیتے، تو اس میں بھی آپ کو نظر آتا کہ سپریم کورٹ میں میری تعیناتی 17 ستمبر 2023 سے 25 اکتوبر 2024 تک ہے اور شاید یہ اپنی نوعیت کا واحد نوٹیفکیشن ہو جس میں تعیناتی کے ساتھ رخصتی کی تاریخ بھی لکھی ہو۔
محمد مشتاق نے مزید لکھا کہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اچھی کہانیاں بھی موجود ہیں۔ مثلاً ایک رپورٹر نے دوسروں کی دیکھا دیکھی ٹوئٹ کی کہ قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری خرچ پر عشائیہ لینے سے تو انکار کیا تھا، لیکن اب ظہرانہ لے رہے ہیں۔ میں نے انہیں میسج کیاکہ بھائی، ظہرانہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگر جج اپنی جیب سے دے رہے ہیں۔ انہوں نے فوراً معذرت کی اور مذکورہ ٹوئٹ حذف کرکے نئی ٹوئٹ میں تصحیح بھی کردی۔
یہ بھی پڑھیں لائیو عدالتی کارروائی لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آسکی؟
سچ پوچھیں تو مجھے ان بے چارے رپورٹرز پر ترس بھی آتا ہے کیونکہ جب ان کے اخبار کی ملکیت تبدیل ہوجائے، مثلاً کوئی سرمایہ دار خرید لے، تو ظاہر ہے کہ اسی اخبار میں نوکری برقرار رکھنے کےلیے قبلہ تبدیل کرنا تو پڑتا ہے۔