پنجاب کالج واقعہ میں مبینہ زیادتی کا معاملہ 14 اکتوبر کو سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا تھا۔ مبینہ زیادتی کی فیک خبر پر طلبہ و طالبات مشتعل ہوکر سٹرکوں پر نکل آگئے تھے۔ مشتعل طلبہ نے کالج کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اس دوران پولیس اور طلبہ کی جھڑپوں کی وجہ 27 کے قریب طلبہ زخمی ہوئے۔
پنجاب بھر میں اس فیک خبر پر مظاہرے ہوئے۔ ایک ہائی پاور کمیٹی بنائی جس نے بتایا کہ پنجاب کالج زیادتی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی اس سارے واقعے کے حوالے سے حقائق عوام کے سامنے رکھے اور بتایا کہ کیسے یہ فیک نیوز پھیلائی گئی۔
پولیس کی مدعیت میں واقعے کی ایف آئی آر درج کی گئی جس میں بتایا گیا کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک جھوٹے واقعے پر طلبہ کو اشتعال دلوایا گیا۔ ڈی آئی جی عمران کشور نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے 16 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ فیک نیوز پھیلانے والے 138 اکاؤنٹس بلاک کرائے گئے، توڑ پھوڑ اور تشدد میں ملوث 40 طلبا کی شناخت کرلی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:پنجاب کالج کیس: من گھڑت خبر پھیلانے کے الزام میں گرفتار شخص کی رہائی کا حکم
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم کی سرابراہی میں 3 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس نے اس واقعے پر پولیس کے بجائے ایف آئی اے کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک آزاد انکوائری کرکے کورٹ کو بتائے کہ اس واقعہ کی حقیقت کیا ہے؟
ذرائع ایف آئی نے بتایا کہ 300 صحفحات پر مشتمل رپورٹ لاہور ہائیکورٹ میں جمع کروا دی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کالج میں زیادتی کا کوئی معاملہ نہیں ہوا۔ ایف آئی اے نے تمام شوائد اکھٹے کیے جو سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے مگر ان میں کچھ بھی حقیقت نہیں تھا۔ جھوٹی خبر کو بنیاد بنا کر احتجاج کیا گیا، صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر کے بیان کے بعد زیادہ اشتعال انگیزی پھیلی۔
ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ واقعہ پنجاب کالج کی 3 طالبات سے پھیلا۔ طالبات نے کلاس کی ٹیچر کو بتایا کہ ایک لڑکی کے ساتھ کالج میں ریپ ہوا ہے، جس پر ٹیچر نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ ریپ ہوا ہے اور وہ لڑکی کون ہے؟ اس پر طالبات کچھ بتانے سے قاصر رہیں۔ کلاس ٹیچر نے یہ بات کالج کی پرنسپل کو بتائی کہ 3 طالبات کلاس میں یہ بار بار کہہ رہی ہیں کہ ایک لڑکی کا ریپ ہوا ہے۔ پرنسپل نے ان 3 لڑکیوں سے پوچھا، 3 میں سے ایک لڑکی نور فاطمہ نے بتایا کہ ہم نے یہ سنا ہے کہ کالج میں ریپ ہوا ہے مگر کہاں سے سنا ہے اور وہ لڑکی کون ہے، نہیں جانتیں۔ اس پر پرنسپل نے تینوں کو سختی سے منع کیا کہ اب دوبارہ اس طرح کی غلط بات کالج میں نہ کی جائے۔
مزید پڑھیں:پنجاب کالج میں لڑکی سےمبینہ زیادتی کا معاملہ ہے کیا؟
اگلے روز پنجاب کالج میں مبینہ ریپ کے حوالے سے ایک انسٹا گرام اکاؤنٹ پوسٹ سے شئیر کی گئی جس کے بعد یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ انسٹا گرام اکاؤنٹ کا تاحال پتا نہیں لگایا جا سکا کیونکہ وہ اکاؤنٹ ڈیلیٹ کردیا گیا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جس لڑکی کا کہا جاتا رہا کہ وہ لڑکی اسپتال میں ہے اس سے بھی پوچھ گچھ کی گئی مگر لڑکی نے بھی بتایا کہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اس فیک خبر کو پھیلایا گیا اور کون سی جماعت کے لوگ اس میں ملوث ہیں۔ سب اس رپورٹ میں شامل ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز ڈیلیٹ ہونے کے بھی کوئی شوائد نہیں ملے۔ تمام سی ٹی وی فوٹیجز تاریخ کے ساتھ موجود تھیں۔ ان میں کہیں بھی اس واقعہ کو نہیں دیکھا گیا۔
سوشل میڈیا پر نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کے جھوٹے دعوے کے کیس میں صوبائی حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے ایک اور مقدمے میں تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دیدی، 5 رکنی جے آئی ٹی کی سربراہی ایس پی آرگنائزڈ کرائم یونٹ آفتاب پھلروان کریں گے۔ کمیٹی میں 3 پولیس افسران سمیت آئی بی اور ایف آئی اے کا نمائندہ بھی شامل ہوگا۔
جے آئی ٹی سوشل میڈیا پر طالبہ کی جعلی ماں سے متعلق درج مقدمے کی تفتیش کرے گی، جے آئی ٹی ملزمہ کے اقدام سے متعلق تمام پہلوؤں سے تفتیش کرے گی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی سارہ خان نے سوشل میڈیا پر متاثرہ طالبہ کی ماں ظاہر کیا تھا، گلبرگ پولیس نے سارہ خان کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے۔