پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ گیری کرسٹن کا سفر 7 ماہ بعد ہی اس وقت اختتام پذیر ہوگیا جب ان کے اور پی سی بی کے در میان ٹیم سلیکشن، بعض کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دینے سمیت دیگر اہم امور پر اختلافات پیدا ہوئے، انہی اختلافات کی بنیاد پر سابق جنوبی افریقی اسٹار کھلاڑی نے قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
یہ پہلی بار نہیں ہوا جب کسی غیر ملکی کوچ نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ اپنا معاہدہ ادھورا چھوڑا ہو یا پی سی بی نے معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کیا ہو۔ گیری کرسٹن کا ٹیم سے الگ ہونا اس نوعیت کا دسواں واقعہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان کرکٹ ٹیم باصلاحیت، کارکردگی میں تسلسل نہ ہونا اہم مسئلہ ہے، کوچ جیسن گلیسپی
1992 کے ورلڈ کپ سے لے کر 2014 تک پاکستان نے 27 ملکی اور غیر ملکی کوچز تعینات کیے جو مسلسل عدم استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔
1999 سے 2003 تک ایک ایسے بھی غیر ملکی کوچ رہے ہیں جنہیں 4 بار تعینات کیا گیا اور چاروں بار معاہدے مکمل نہیں ہو پائے۔
وی نیوز نے یہ تفصیلات سامنے لائی ہیں کہ اب تک کون کون سے غیر ملکی کوچز معاہدے ادھورے چھوڑ چکے ہیں؟ پاکستان ٹیم کے ساتھ غیر ملکی کوچز کے معاہدے مکمل کیوں نہیں ہوتے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟
’رچرڈ بائی پس پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے غیر ملکی کوچ‘
انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے رچرڈ بائی پس کو پاکستان کے پہلے غیر ملکی کوچ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جنہوں نے پاکستان ٹیم کی کوچنگ کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ پہلی بار بائی پس کو 1999 میں عارضی بنیادوں پر تعینات کیا گیا۔ اسی سال کھیلے گئے ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا سے شکست ان کی نوکری لے ڈوبی اور کرکٹ بورڈ نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے بجائے گھر بھیج دیا۔
اسی سال پی سی بی نے انہیں فل ٹائم ہیڈ کوچ کے لیے دوبارہ دعوت دی اور صرف ایک ماہ بعد کی ملک میں مارشل لا نافذ ہوگیا جو دیگر کئی افراد کی طرح ان کی نوکری بھی کھا گیا۔
اس کے بعد انتخاب عالم اور جاوید میانداد کو ذمہ داریاں سونپی گئیں مگر پی سی بی کو حیران کن طور پر ایک بار پھر بائی پس کی یاد آگئی اور انہیں پھر 2001 میں تیسری بار ہیڈ کوچ تعینات کر دیا گیا، تاہم سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر وہ واپس چلے گئے۔
اس کے بعد 2002 میں انہیں پھر ذمہ داریاں ملیں اور 2003 کے ورلڈ کپ میں بدترین شکست کے بعد وسیم اکرم، وقار یونس، سعید انور کے ساتھ ان کی کشتی بھی ڈوب گئی۔
’باب وولمر کامیاب ترین کوچ جن کا دور ان کی موت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا‘
اپنے جدید کوچنگ اسٹائل کے لیے مشہور وولمر کو پاکستان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کے لیے 2004 میں ذمہ داریاں دی گئیں، انہیں ریوس سویپ شاٹ کے مؤجد کھلاڑیوں میں سے بھی ایک مانا جاتا ہے۔ وولمر کو پاکستان ٹیم کی طویل عرصے تک کوچنگ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، پاکستان ٹیم کے اس وقت کے کپتان انضمام کے ساتھ ان کی انڈر اسٹینڈنگ مثالی رہی جس کی وجہ سے وہ 2007 کے ورلڈ کپ تک تقریباً چار سال قومی ٹیم کے کوچ رہے۔ ویسٹ انڈیز کے جزائر کی میزبانی میں کھیلے گئے اس میگا ایونٹ کے پہلے ہی راؤنڈ سے پاکستان باہر ہوگیا تھا اور جس دن پاکستان باہر ہوا اسی دن ان کی موت واقع ہوئی۔ پولیس نے اگر چہ ان کی موت کو طبعی وجوہات کی بنیاد پر قرار دیا مگر آئن چیپل سمیت کئی کرکٹ تجزیہ نگاروں نے دیگر کئی وجوہات کی نشاندہی کی۔
’جیف لاسن پاکستان ٹیم کے تیسرے مگر نسبتاً غیر معروف آسٹریلوی کوچ‘
باب وولمر کی وفات کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے کسی مقامی اسٹار کے بجائے کپتان انضمام الحق کی رائے کے مطابق آسٹریلیا کے نسبتاً غیر معروف کوچ جیف لاسن کو 2 سال کے لیے تعینات کیا۔ اس سے قبل لاسن کا انٹرنیشنل کوچنگ کا تجزبہ بالکل بھی نہیں تھا، وہ صرف آسٹریلین ڈومیسٹک سائیڈ نیو ساؤتھ ویلیز کے ہیڈ کوچ رہ چکے تھے۔
یہ بھی پڑھیں پاکستان کرکٹ ٹیم کے غیر ملکی کوچز مستعفی
پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین اعجاز بٹ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، جیف لاسن کی خواہش کے باوجود ان کی 2 سالہ مدت میں توسیع نہیں کی گئی بلکہ انہیں 24 اکتوبر 2008 کو تقریباً ایک سال اور کچھ ماہ بعد ہی برطرف کردیا گیا۔
’ ڈیو واٹمور سری لنکن نژاد آسٹریلین پاکستان ٹیم کے چوتھے غیر ملکی کوچ ‘
16 مارچ 1954 کو کولمبو میں پیدا ہونے والے ڈیو واٹمور نے فرسٹ کلاس اور انٹرنیشنل کرکٹ آسٹریلیا کی جانب سے کھیلی۔ 2012 میں پاکستان ٹیم کے لیے دو سالہ معاہدے کے ساتھ ہیڈ کوچ تعینات ہونے سے قبل وہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیموں کے ہیڈ کوچ رہ چکے تھے جبکہ انڈیا کی انڈر 19 ٹیم کی کوچنگ بھی انہوں نے کی۔
واٹمور نے پاکستان کی کوچنگ سنبھالتے ہی بڑی کامیابی حاصل کی اور پاکستان نے تیسری بار ایشیا کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ واٹمور پہلے غیر ملکی کوچ تھے جنہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ اپنا دو سالہ معاہدہ پورا کیا مگر مارچ 2014 میں کرکٹ بورڈ نے متعدد کامیابیوں کے باوجود ان کے معاہدے میں توسیع نہیں کی۔
’2 بار قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ رہنے والے متنازع ترین مکی آرتھر‘
2016 میں ڈیو واٹمور کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے محسن خان کو عارضی جبکہ وقار یونس کو فل ٹائم کوچ تعینات کیا۔ سابق پیس اسٹار کو معاہدہ ختم ہونے سے پہلے عہدے سے ہٹایا گیا تو کرکٹ بورڈ کی نظر ایک بار پھر غیر ملکی کوچ پر جا ٹھہری۔
پی سی بی کی سرچ کمیٹی نے طویل ہوم ورک کے بعد جنوبی افریقہ کے ساتھ کھلاڑی مکی آرتھر کو ٹیم کا ہیڈ کوچ تعینات کیا۔ یہ ان کی کسی بھی نیشنل ٹیم کی کوچنگ کی تیسری اسائمنٹ تھی اس سے قبل وہ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کی کوچنگ کرچکے تھے۔
مکی آرتھر کا دونوں ٹیموں کے ساتھ اختتام انتہائی متنازعہ انداز میں ہوا۔ انہیں 2005 میں تعینات کیا گیا اور 2010 میں انہوں نے کرکٹ بورڈ کے ساتھ اختلافات کی بنیاد پر استعفیٰ دیا۔
آسٹریلیا ٹیم کے ساتھ بھی ان کا اختتام خوشگوار نہیں ہوا۔ کھلاڑیوں سے شدید اختلافات اور بیان بازی کے بعد انہیں کوچنگ سے برطرف کیا گیا۔ ان تنازعات کو نظر انداز کرتے ہوئے پی سی بی نے مکی آرتھر کو ذمہ داریاں سونپیں۔ انہوں نے پاکستان کو بھرپور کامیابیاں دلوائیں، ان کی کوچنگ میں پاکستان ٹی 20اور ون ڈے کی نمبر ون سائیڈ بنا جبکہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی بھی پاکستان نے جیتی۔
7 جون 2019 کو ان کے معاہدے کے اختتام پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے مدت میں توسیع کی خواہش منظور نہیں کی اور ان سے معذرت کر لی گئی۔
2023 میں مکی آرتھر کو ایک بار پھر پاکستان نے ہیڈ کوچ تعینات کیا مگر انہوں نے ڈربی شائر کے ساتھ اپنی مصروفیات کی بنیاد پر معذرت کرلی، بعد میں پی سی بی نے ایک اور حیرت انگیز تجزبہ کیا اور مکی آرتھر کو ’آن لائن‘ ڈائریکٹر ٹیم مقرر کیا مگر ان کی یہ مدت انتہائی مختصر ثابت ہوئی اور چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کے عہدے سے ہٹنے کے بعد مکی آرتھر نے بھی استعفی دے دیا۔
’گرانٹ برڈ برن جن کے بطور فیلڈنگ کوچ اور ہیڈ کوچ دونوں ادوار نا مکمل رہے‘
پاکستان کرکٹ بورڈ نے گرانٹ برڈ برن کو پہلی بار 2018 میں فیلڈنگ کوچ تعینات کیا، ان کی تعیناتی 3 سال کے لیے کی گئی تھی مگر انہوں نے 2021 میں نجی وجوہات کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا، بعد میں کرکٹ بورڈ نے مکی آرتھر کی نگرانی میں 2023 میں نیا کوچنگ سیٹ اپ تشکیل دیا اور انہیں ہیڈ کوچ تعینات کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں پی سی بی سے اختلافات، قومی وائٹ بال ٹیم کے کوچ گیری کرسٹن مستعفی
پی سی بی میں عدم استحکام اور مسلسل تبدیلیوں کے بعد مکی آرتھر کے ساتھ انہیں بھی گھر بھیج دیا گیا۔ یہ غیر ملکی کوچ کا اپنی ملازمت کا دورانیہ پورا نہ کرنے کا تقریباً نواں واقعہ ہے۔
’کوچنگ کی جدت سے آشنا گیری کرسٹن نے نوشہ دیوار پڑھ لیا تھا‘
گیری کرسٹن کا شکار کرکٹ کے کامیاب ترین کھلاڑیوں اور بہترین کوچز میں کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے ملک کی جانب سے بھرپور انٹرنیشنل کیریئر گزارا جس میں 101 ٹیسٹ، 185 ون ڈے اور 221 فرسٹ کلاس مقابلے شامل ہیں۔
کرسٹن پاکستان ٹیم کے ساتھ منسلک ہونے سے قبل کوچنگ کے میدان میں بھی بھرپور اننگز کھیل چکے ہیں، جس میں انہوں نے انڈیا، جنوبی افریقہ کی نیشنل ٹیموں کے ساتھ ساتھ متعدد فرنچائز کے ساتھ بھی کام کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے گیری کرسٹن کو اپریل 2024 میں طویل چھان بین کے بعد ون ڈے اور ٹی 20 سائیڈ کا ہیڈ کوچ تعینات کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا جب ٹیسٹ سائیڈ کے لیے ایک اور غیر ملکی جیسن گلپسی کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
گیری کرسٹن کا دور پاکستان کے لیے بھیانک ثابت ہوا۔ پاکستان کو لگاتار شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر ان کے استعفے کے پیچھے خراب پرفارمنس نہیں بلکہ پی سی بی سے اختلافات تھے۔
ماہرین کے خیال میں گیری گرسٹن نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا، اس سے قبل کہ پی سی بی انہیں برطرف کرتا انہوں نے اخلاقی برتری کے لیے عہدہ ہی چھوڑ دیا۔ اس وقت آسٹریلیا کے جیسن گلپسی قومی ٹیم کے مختصر فارمیٹ کے ’عارضی‘ جبکہ ٹیسٹ سائیڈ کے ’فل ٹائم‘ کوچ ہیں جو یہ ذمہ داری ادا کرنے والے ساتویں غیر ملکی ہیں۔
’ معاہدوں کی عدم تکمیل، پاکستان کرکٹ کی بدنامی کا باعث ہے‘
پاکستان کرکٹ نہ صرف کوچز بلکہ چیئرمین بورڈ، کپتان، سلیکشن کمیٹی سمیت ہر شعبے میں عدم تسلسل کے حوالے سے مشہور ہے، اس حوالے سے حالیہ عرصے میں غیر ملکی کوچز کی تعیناتی کے عمل میں پی سی بی کو مسلسل بداعتمادی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ مکی آرتھر نے اسی وجہ سے کچھ اہم شرائط معاہدے میں شامل کروائی تھیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کوچز بالخصوص غیر ملکیوں کے ساتھ معاہدے کیوں مکمل نہیں کرپاتا اس حوالے سے سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے اور اس کا پاکستان کرکٹ کو شدید نقصان ہوا ہے اور مزید بھی ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ فیصلہ کرنے والے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ انٹرنیشنل سرکٹ میں موجود اچھے کوچز کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ہمارا رویہ اب کسی بھی بہتر شخص کی خدمات حاصل کرنے میں بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
’دنیا میں یہ بات مشہور ہوچکی کہ پی سی بی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا‘
سینیئر صحافی اور دی نیوز انٹرنیشنل کے ساتھ منسلک عبدالمحئی شاہ کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کی یہ عادت بن چکی ہے اور ہم انٹرنیشنل سرکٹ میں مشہور ہوچکے ہیں کہ ان کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہاکہ ماضی قریب میں تو ایک کوچ نے لوگوں کو پی سی بی کے ساتھ کام کرنے سے منع کر نا شروع کر دیا تھا، جن ٹیموں کی ہم مثالیں دیتے ہیں ان کے ہاں تسلسل بھی دیکھنا چاہیے۔
عبدالمحئی شاہ نے کہاکہ آسٹریلیا نے جس کوچ کو 2022 میں تعینات کیا تھا اس کو 2027 تک مزید توسیع دے دی ہے اتنے عرصے میں پاکستان کرکٹ بورڈ تو شاید درجن بھر کوچز تبدیل کر دے۔
یہ بھی پڑھیں کیا پی سی بی کے گیری کرسٹن اور جیسن گلیسپی سے کوچنگ کے معاملات طے پاگئے؟
’یہ عدم استحکام پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے‘
اس حوالے سے سابق کپتان اور چیئرمین پی سی بی رمیز راجا نے بھی تبصرہ کیا ہے، اپنے تصدیق شدہ ایکس اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ عدم استحکام پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے، ان حالات میں پاکستان کے لیے انٹرنیشنل ٹیلنٹ کی خدمات کا حصول مزید مشکل ہو جائے گا۔