سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس اطہر من اللہ لکھتے ہیں کہ مجھے اپنے فاضل بھائی قاضی فائز عیسٰی چیف جسٹس کا فیصلہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اور مجھے ان کی قانون اور آئین کی واضح تشریح سے متفق نہ ہونے یا اس کی توثیق نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مذکورہ فیصلہ ایک شہری مختیار احمد کی درخواست پر گزشتہ برس 16 اکتوبر کو سنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں جسٹس منصور علی شاہ کے قاضی فائز عیسیٰ پر سنگین الزامات، فل کورٹ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ بھی بتادی
درخواست گزار شہری معلومات تک رسائی کے حق کے تحت سپریم کورٹ ملازمین سے متعلق زمرہ وار (کیٹیگری وائز) معلومات کا حصول چاہتا تھا۔
اس مقدمے کی خاص بات رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست تھی جس پر قانونی سوال اٹھ گیا کہ آیا سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے سامنے درخواست دائر کر سکتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مختیار احمد کی درخواست مسترد کردی تھی لیکن سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بینچ نے یہ مذکورہ درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ رجسٹرار کو حکم دیا کہ مختیار احمد کو درکار معلومات 7 یوم کے اندر فراہم کی جائیں۔
اسی فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا اضافی نوٹ جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کے پاس اس فیصلے سے اختلاف کی کوئی وجہ نہیں۔
یہ بھی پڑھیں فیصلہ تاخیر سے کیوں لکھا، چیف جسٹس پاکستان کی جسٹس اطہر من اللہ پر کڑی تنقید
تاہم انہوں نے ساتھ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’اگر شہری یہ سمجھیں کہ بنیادی حقوق کے محافظ خود ان حقوق کو محدود کرنے میں ملوث ہیں تو عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا، سپریم کورٹ کے پاس تلوار یا خزانے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اور اس کی قوت اور طاقت عوام کے اعتماد پر منحصر ہے۔ کوئی شہری سپریم کورٹ سے یہ سوچ کر نہیں جانا چاہیے کہ معلومات تک رسائی کی درخواست کو قبول نہ کرنا عوامی معلومات کو چھپانے یا دبانے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ دوسرے اداروں کے اقدامات اور فیصلوں کی شفافیت اور کھلے پن کو یقینی بنا کر بنیادی حقوق کا نفاذ کرتی ہے‘۔