مقبوضہ کشمیر میں نوکریوں کے بحران نے مودی حکومت کے اس پروپیگنڈے کو بے نقاب کیا ہے کہ 2019 کے اقدامات سے مقبوضہ وادی میں خوشحالی آئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے گاؤں ہگام سے تعلق رکھنے والے شہری مقصود احمد گنائی نے پی ایچ ڈی کررکھی ہے، تاہم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ سڑک کنارے جوس بیچنے پر مجبور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے 77 برس، قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور
مقصود احمد اپنے گاؤں سے 29 کلومیٹر (18 میل) دور، خوبصورت وادی پہلگام کی طرف جاتے ہوئے سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کی امید میں دن بھر اپنے عارضی اسٹال پر کھڑے رہتے ہیں اور گزرتی ہوئی گاڑیوں میں سوار مسافروں کو تازہ سیب کا جوس پیش کرتے ہیں۔
38 سالہ مقصود احمد نے کشمیر یونیورسٹی سے نباتیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، جو خطے کا سب سے قدیم اور سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے، مقصود احمد کے پاس ایک سرکاری کالج میں عارضی بنیادوں پر تدریس کا تقریباً 10 سال کا تجربہ بھی ہے، اس کے باوجود وہ سڑک کنارے جوس بیچنے پر مجبور ہیں۔
عرب ٹی وی چینل الجزیرہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے اپنے سسرال کے سیب کے باغ کے قریب جوس بیچنے پر مجبور ہیں، جوس بیچن کر وہ کسی دن 100 سے 500 بھارتی روپے کما لیتے ہیں جبکہ کسی دن ایک روپیہ بھی نہیں کماپاتے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں جاری جرائم انسانیت کی سنگین ترین خلاف ورزی ہیں، پاکستان
مقصود احمد کے مطابق انہوں نے ملازمت کے لیے بہت بار کوشش کی مگر ہربار وہ ناکام رہے، انہوں نے مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ یا MGNREGA جیسے سرکاری پروگراموں کے ذریعے جاب حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن یہاں تک کہ کی نوکری جس میں زیادہ تر غیر ہنر مند دستی کام شامل ہیں، پی ایچ ڈی کے طور پر ان کی ‘زیادہ قابلیت’ کی وجہ سے مقصود احمد کے لیے آسان نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’میں دستی کام کے لیے زیادہ اہل تھا لیکن یہ مجھے نہیں ملا، اسی لیے میں نے جوس بیچنے کا فیصلہ کیا تاکہ میں مصروف رہ سکوں اور اپنی عقل سے محروم نہ ہوں، صورتحال انوکھی نہیں ہے کیونکہ بہت سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ایک جیسی معاشی جدوجہد کا سامنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرائیں گے، کانگریس کا ریاستی انتخابات سے قبل کشمیریوں سے وعدہ
انہوں نے کہا ’ شام کو پاؤں میں درد اور کمر درد کے ساتھ گھر لوٹتا ہوں، میری حالت دیکھ کر میری ماں یہ سوچ کر روتی ہے کہ میں نے پڑھائی اور کچھ بننے کے لیے کتنی محنت کی تھی۔‘
مقصود احمد کی اہلیہ بھی تعلیم یافتہ، مگر بیروزگار
مقصود احمد کی اہلیہ روبیہ نے بھی کشمیر کی ایک یونیورسٹی سے سماجیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کررکھی ہے، لیکن تدریس یا سماجی کام کی نوکری کے لیے کوشش کرنے کے باوجود وہ اپنے شوہر کی طرح بے روزگار ہیں۔
مودی حکومت کے دعوے زمینی حقائق کے برعکس
یاد رہے کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں محدود خودمختاری کو ختم کیا اور اسے 2019 میں نئی دہلی کے براہ راست کنٹرول میں لایا تو اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس اقدام سے خطے میں اقتصادی خوشحالی اور زیادہ سرمایہ کاری آئے گی۔
لیکن زمینی صورتحال اس دعوے کی تردید کرتی ہے کہ مقبوضہ وادی میں ملازمتیں سکڑ گئی ہیں اور کاروبار میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 5 اگست جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، وفاقی وزیر امورِ کشمیر امیر مقام
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق خطے میں بے روزگاری کی موجودہ شرح 18.3 فیصد ہے، جو کہ 9 فیصد کی قومی اوسط سے دوگنا ہے، بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے مطابق یہ دہائیوں میں خطے کی بدترین شرح ہے۔
ہندوستانی وزارت شماریات کے مطابق سال 2018-2019 میں جزوی خودمختاری کے خاتمے سے عین قبل ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں بے روزگاری کی شرح 5.1 فیصد تھی۔
7 ملین رہائشیوں کے علاقے میں 18.3 فیصد کی بیروزگاری کی شرح مقصود احمد جیسے ایک ملین سے زیادہ بے روزگار نوجوانوں کی ترجمانی کرتی ہے، جو بقا کے لیے سڑک کے کنارے اسٹال لگانے پر مجبور ہیں۔