ٹرمپ کپتان کے لیے کچھ نہیں کرے گا

منگل 5 نومبر 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ٹرمپ جیتے یا کملا ہیرس چین کے لیے دونوں ہی برابر ہیں۔ چین کی حکومت نے اپنی اندرونی ڈیمانڈ میں اضافہ کرنے کی پالیسی بنائی ہے۔ 1400 ارب ڈالر مقامی شہری حکومتوں کو فراہم کیے جائیں گے۔ اس رقم سے یہ مقامی حکومتیں ریئل اسٹیٹ کو بحال کریں گی۔ پراپرٹی سیکٹر چل پڑا تو نئی تعمیرات شروع ہوگئیں اور گروتھ ریٹ حاصل ہو جائے گا۔ یہ معیشت بحالی کے لیے ایک بڑا بوسٹر ہے۔ اس کا عندیہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ٹرمپ الیکشن جیت گیا تو معاشی بحالی کے لیے اس رقم میں اور اضافہ کر دیا جائے گا۔

ڈیموکریٹس ہوں یا ریپبلکن دونوں ہی چین کو کھینچ کر رکھو کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ چین کو یورپ اور امریکا کی جانب سے ٹیرف اور ٹریڈ وار کا سامنا ہے۔ اس پر چین نے خصما نوں کھاؤ کہتے ہوئے اپنی اندرونی ڈیمانڈ کی طرف توجہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین معاشی ہی نہیں ایک فوجی طاقت بھی ہے۔ وہ بھی اپنے مسل تو دکھائے گا۔ سنہ 2023 سے اکتوبر 2024 تک چین کی  بحری اور زمینی افواج 3 جنگی مشقیں کر چکی ہیں۔ تائیوان کی بحری ناکہ بندی کرنے کے طریقوں کو ان مشقوں میں آزمایا گیا ہے۔ Sword exercisesتائیوان دنیا کو سیمی کنڈکٹر اور چپ فراہم  کرتا ہے جو ہر انڈسٹری کی ضرورت ہیں۔ یہ سپلائی چین متاثر ہوئی تو ساری دنیا  کو آرام آ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری، اور بھی بھاری

مڈل ایسٹ میں سعودی عرب، یو اے ای اور قطر، تینوں ملکوں نے امریکی الیکشن کی مانیٹرنگ شروع کر رکھی ہے۔ الیکشن کے نتائج کیا ہونگے، جو آئے گا اس کی پالیسیاں کیا ہونگی تب اپنی پالیسی کیا بنانی ہے۔ اس پر غور ہو رہا ہے۔ ٹرمپ ڈائلاگ مارتا رہتا ہے آئی لو آئل۔ آئل انڈسٹری کے بڑے سی ای او بھی اب بیان دے رہے ہیں کہ بھائی تو مت ایسے کہہ نہ ہمارے لیے کام دیکھ، کلائیمیٹ چینج والے ہمارے پیچھے پڑ جائیں گے۔ ٹرمپ کہہ چکا ہے کہ وہ امریکا میں شیل کمپنیوں کے ریگولیشن کو تبدیل کر دے گا۔ ایسا ہوا تو امریکا میں انرجی قیمتیں کم ہو جائیں گی اور سپلائی بہتر ہو جائے گی، انرجی کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔

کملا ہیرس جیت گئیں تو ان کا دور صدارت جو بائیڈن کا ہی تسلسل ہوگا۔ انرجی کے متبادل ذرائع پر کام ہو گا۔ کلائمیٹ چینج کے حوالے سے فوکس بڑھے گا۔ امریکا نیٹو سمیت باقی اتحادوں کو چلاتا رہے گا۔ جنگ میں روس کے خلاف یوکرین کی مدد جاری رکھے گا۔ ٹرمپ صاف کہتا ہے کہ اپنا دفاع خود کرو۔ ہم سے دفاع کروانا ہے تو اس کی قیمت ہو گی۔ امریکا کے حریف سے زیادہ اس کے حلیف ٹرمپ سے پریشان ہونگے۔ بطور صدر یورپ، جاپان، جنوبی کوریا اور انڈیا تک سے ٹرمپ نے رقم بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان کے حوالے سے امریکی الیکشن کی صورتحال دلچسپ ہے۔ بارلے پاکستانیوں میں کپتان ہر جگہ بہت مقبول ہے۔ کپتان کے بقول اس کی حکومت سازش سے ڈونلڈ لو نے راجہ ریاض کے ساتھ مل کر گرائی تھی۔ ہم کوئی غلام ہیں وغیرہ کا نعرہ بھی لگوا دیا تھا اپنے مداحوں سے۔ پی ٹی آئی نے جو ماحول بنا رکھا ہے۔ اس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ فون ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھا ہے۔ الیکشن نتائج مکمل ہونے سے پہلے اس نے کال کر دینی ہے کہ بس بہت ہو گئی کپتان کو اب باہر نکالو۔

مزید پڑھیے: 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا؟

آصف زرداری، نوازشریف، خود کپتان اور میاں محمد شہباز شریف، 4 حکومتیں بھگت چکی ہیں۔ امریکی ہر طرح سے ترلے کر کے دیکھ چکے آفریں مار چکے۔ شکیل آفریدی اب تک اندر ہے۔ اسے دادا کی نشانی کے طور پر ہم نے بہت سنبھالا ہوا ہے۔ کپتان تو اس سے زیادہ سوہنا ہے۔ اس سے حوالدار بشیر کو سچا پیار بھی ہوا رہا ہے۔ ایسے کوئی تھوڑی جانے دے گا اپنے جانو کو۔

امریکا میں پاکستانی ووٹر جتنے بھی ہیں۔ کسی ایک ریاست میں بھی یہ فیصلہ کن برتری دلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ البتہ ان سب نے مل ملا کر ٹرمپ کی مہم چلا رکھی ہے۔ ڈیموکریٹس کو امریکا میں امیگرنٹس کی پارٹی کہا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف ملا تو ڈیموکریٹس ہی دلوا سکتے ہیں۔ ریپبلکن اسٹیٹس کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے کام نکلوانے کے قائل ہیں۔ انسانی حقوق، جمہوریت وغیرہ کے آلو آنڈے ان کو زیادہ اٹریکٹ نہیں کرتے۔

 پاکستانیوں نے کپتان کے چکر میں اکثریتی ووٹ ٹرمپ کو ڈال کر ڈیموکریٹس کے سامنے بھی اپنا کیس لمبا خراب کر لینا ہے۔ وہ بھی سوچیں گے جب ہمیں ضرورت تھی، یہ دور کی بتی پیچھے نکل گئے تھے۔

مزید پڑھیں: ’ایس سی او‘ پاکستان انڈیا کو قریب لا رہی ہے

باقی ساری دنیا نے کسی بھی امریکی صدر کے آنے کی صورت میں تیاری کر رکھی ہے۔ مثال کے لیے چین کا پروگرام پڑھ لیں اوپر۔ یہ صرف ہم ہیں جنہوں نے اپنے لیے کام دیکھنے کو تیاری کر رکھی ہے۔ پی ٹی آئی والے تمہی نے درد دیا تمہی دوا دو، گاتے ٹرمپ سے امید لگائے گا رہے ہیں۔ ٹرمپ کپتان کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ اس کی وجوہات پھر کبھی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ الیکشن کا نتیجہ جو بھی آیا، امریکی کون لوگ او تسی کہنا ضرور سیکھ جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp