عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ و سینیٹر ایمل ولی خان نے قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان سے منظور ہونے والے ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان کو ربڑ اسٹمپ کی طرح استعمال کرنے پر دکھ اور افسوس ہوا ہے، یہ جو کھڈے کھود رہے ہیں کل ان میں خود ہی گریں گے۔
یہ بھی پڑھیں:26 ویں آئینی ترمیم نے ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ جیسے ججز کا راستہ روک دیا، ایمل ولی خان کا سینیٹ میں خطاب
پیر کو سینٹ آف پاکستان کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی و سینیٹر ایمل ولی خان نے قومی اسمبلی و سینیٹ سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیح سے متعلق کہا کہ ملک میں ترامیم ہونی چاہییں لیکن اس طرح چوری چھپے ترامیم لانا تو ڈکیتی ہے۔رات کو ہمارے پاس ترمیم کا مسودہ کچھ اور تھا صبح کچھ اور ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ جو قانون لائے ہیں جن کے لیے لائے ہیں، ان دِنوں کے لیے افسوس ہوتا ہے جب پارلیمان کو ربڑاسٹمپ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے، حکومت آنے جانے والی چیز ہے، ہماری تو حکومت نہیں لیکن یہ جو آج بیٹھے ہیں یا کل آئیں گے یہ جو بھی کھڈے کھود رہے ہیں ان میں خود ہی گریں گے۔
مزید پڑھیں: آئینی ترمیم جتنی جلدی ہوجائے اتنا بہتر ہے، ایمل ولی خان
انہوں نے کہا کہ ملک میں ترامیم ہونی چاہییں لیکن اس طرح چوری چھپے ترمیم لانا تو ڈکیتی ہے، ترمیم لانا چاہتے ہیں تو پہلے اس پر بحث ہونی چاہیے،چھپ چھپ کر ترمیم کرنا کون سی ترمیم ہے، اگر آرمی چیف کو 5 سال کی توسیع دینا ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہے تو پھر اس پر بحث ہونی چاہیے۔
واضح رہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے تمام 6 بل قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی کے دستخطوں کے بعد قانون کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ پہلے بل میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھا کر 34 کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ مقدمات کے بیک لاگ کو دور کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ رجسٹریز سالہا سال خالی رہتی ہیں، ججوں کی تعداد سوچ بچار کے بعد بڑھائی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ
قائم مقام صدر مملکت سید یوسف رضا گیلانی نے پیر اور منگل کی درمیان شب سپریم کورٹ نمبر آف ججز (ترمیمی) بل 2024، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر (ترمیمی) بل 2024 اور اسلام آباد ہائی کورٹ (ترمیمی) بل 2024 سمیت تمام 6 بلز پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
قبل ازیں پیر کو ایوان زیریں اور ایوان بالا نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کیے گئے بلوں کی منظوری دی تھی۔ ان میں سے پہلے بل میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھا کر 34 کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ مقدمات کے بیک لاگ کو دور کیا جاسکے۔