ضلعی مجسٹریٹ اسلام آباد نے پہلی بار ایک ایسا اشتہار دیا ہے جس میں اسلام آباد کے بے اولاد جوڑوں کو مطلع کیا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو ایک عدد نومولود بچہ، بچی ملی ہے، اگر کوئی بے اولاد صاحب ثروت جوڑا اسے گود لینا چاہے تو وہ ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کر سکتا ہے۔
جمعرات کو از دفتر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے جاری اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ’ ہر گاہ مطلع کیا جاتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو ایک عدد نو مولود بچہ یا بچی ملی ہے۔ اسلام آباد کے رہائشی صاحب ثروت بے اولاد جوڑے جو بچہ یا بچی کو گود لینے کے خواہشمند ہوں وہ مجوزہ درخواست فارم ہیڈ کلرک (جنرل) برانچ، ڈپٹی کمشنرآفس، جی الیون فور، اسلام آباد سے حاصل کر سکتے ہیں۔
اشہتار میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ متعلقہ فارم بمعہ تمام دستاویزات مورخہ 15 نومبر 2024 تک جمع کروائے جاسکتے ہیں۔ مقررہ تاریخ کے بعد موصول ہونے والی درخواستیں قابل قبول نہ ہوں گی۔ اشتہار میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ نومولود بچہ ہے یا بچی، اس کی جنس کو واضح نہیں کیا گیا، اس کی جگہ بچہ سلیش بچی لکھا گیا ہے۔
یہ تشہیر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ اسلام آباد کے دستخطوں سے جاری کی گئی ہے، اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے اس اشتہار کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر انتہائی سہراہا جا رہا ہے، اسے انسانیت کی بھلائی کی ایک اعلیٰ مثال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بچہ گود لینے کا کوئی واضح قانون موجود نہیں ہے۔ تاہم اس طرح کے نامعلوم اور بے سہارا بچوں کو گود لینے کے لیے باقاعدہ رجسٹریشن کا ایک عمل ہے جس سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے ’گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ 1890 ‘ نافذ العمل ہے جس کی سیکشن 7 کے تحت درخواست دی جاتی ہے۔
یہ ایکٹ غیر ملکیوں کے لیے ہے نا کہ پاکستان کے شہریوں کے لیے ہے، گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ 1890 غیر شہریوں کو پاکستانی بچے کو گود لینے سے روکتا ہے کیونکہ یہ ملک میں ہی بچے کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
گود لینا ایسے شادی شدہ جوڑوں کے لیے بہترین آپشن ہے جن کے ہاں بچوں کی پیدائش نا ممکن ہے تاہم کسی دوسرے کے بچے کو گود لینے کا فیصلہ کرنے سے پہلے گود لینے کے قانونی پہلوؤں کو جاننا سب سے اہم چیز ہے۔
بچے کو گود لینا کیا ہے؟
بچے گود لینے کا عمل وہ عمل ہے جس کے ذریعہ ایک فرد یا جوڑا جو کسی بچے کے بائیولوجیکل والدین نہیں ہیں وہ قانونی طور پر بچے کو گود لے سکتے ہیں۔ گود لینے کا انتظام والدین یا کسی تیسرے فریق جیسے کسی سوشل سروسز ایجنسی کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے۔
بچے کو گود لینے کی عام اقسام
رضاکارانہ گود لینا، رضا کارانہ طور پر بجے کو اس وقت گود لیا جاتا ہے جب ایک جوڑا جو بچے کے بائیولوجیکل والدین نہیں ہیں وہ خود بچے کو رضا کارانہ طور پر گود لینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
غیر رضامندی سے گود لینے کے اس طریقہ کار میں ایک جوڑا کسی دوسرے جوڑے کو اپنے بچے کا غیر بائیولوجیکل والدین بننے کی درخواست کرتا ہے۔
پاکستان میں گود لینے کا عمل کیا ہے؟
پاکستان میں بچے کو گود لینے کے حوالے سے کوئی خاص قانون موجود نہیں ہے، صرف زبانی رضامندی یا گود لینے کا معاہدہ کافی ہے۔ تاہم غیر ملکی شہریوں یا جو پاکستان سے باہر مقیم ہوں، کی سہولت کے لیے، پاکستان میں مندرجہ ذیل طریقہ کار رائج ہے۔
بچے کو گود لینا کے لیے ایک فارم کو ایک پیشہ ور ڈاکٹر کے ذریعہ پر کرنا ہوگا جبکہ بچے کو گود لینے والے والدین کے ذریعہ مندرجہ ذیل معلومات کے ساتھ ایک رپورٹ لکھنی ہو گی جو ضلعی انتظامیہ کے پاس ہو گی۔
اس معلومات میں بچے کا نام، بچے کی تاریخ پیدائش، پیدائش کی جائے پیدائش، اصل والدین جو بچے کو گود دینا چاہتے ہیں ان کا نام اور مکمل پتا۔ بچے کو گود لینے کے بارے میں بیان میں وہ تاریخ شامل ہونی چاہیے جس میں کی دیکھ بھال کی گئی تھی۔
جب بچے کو پاکستان میں رہنے والے غیر ملکی گود لے رہے ہوں تو انہیں اس بات کا ثبوت دینا ہوگا کہ وہ ملک میں کتنے عرصے سے رہ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بچے کو کیوں گود لینا چاہتے ہیں اور ان کے ہاں کوئی اور بچے ہیں یا نہیں؟۔
طریقہ کار
والدین کے حقوق کو ختم کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا جاتا ہے تاکہ والدین کے حقوق کو ختم کیا جاسکے اور بچے کی ذمہ داری ریاست کو دی جائے۔
اطلاع نامہ کے لیے عدالت کی طرف سے حتمی دلیل اور حکم نامہ لیا جانا ضروری ہے تاکہ بعد میں بائیولوجیکل والدین کی جانب سے کوئی دعویٰ نہ کیا جائے۔
سرپرستی کے لیے درخواست
گود لینے والے والدین کو گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کی دفعات کے تحت پاکستان کی سول، فیملی عدالت میں بچے کی سرپرستی کے لیے درخواست دے کر بچے کی قانونی تحویل حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کی درخواستوں کا طریقہ کار جی ڈبلیو اے کے سیکشن 10 میں بیان کیا گیا ہے۔
سی پی سی فارم کے لیے درخواست دینا
عدالت سے سرپرستی کا حکم حاصل کرنے کے بعد گود لینے والے والدین کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے دفتر سے چائلڈ پروٹیکشن سرٹیفکیٹ (سی پی سی) حاصل کرنا ہوگا۔ اس کے بعد انہیں بچے کے لیے قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) کے لیے درخواست دینی ہوگی۔
یہ سچ ہے کہ والدین کو بچے کو گود لینے کے بعد، بچے کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ بھی مل جاتا ہے، تاہم، یہ واحد دستاویز نہیں ہے جس کے لیے درخواست دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بچہ قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کا اہل ہے۔