تقسیم کے فسادات میں دربدر ہونے والی کتابیں

ہفتہ 9 نومبر 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برصغیر کی تقسیم کے وقت مارا ماری کی فضا میں اپنے گھروندے چھوڑ کر ہجرت کرنے والے خاندانوں کے جانی ومالی نقصان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن اس پرفتن دور میں کتابوں کی متاع بے بہا  کے ضیاع پر کوئی مضمون کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ میری دانست میں یہ نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے ایسا  کاری وار ہے، جس کا اندازہ کتاب سے محبت کرنے والے ہی کر سکتے ہیں۔

دوسرے اسباب سے محرومی بھی تکلیف دہ ہے لیکن پیسے آجائیں تو انہیں بازار سے ایک ہی دفعہ میں دوبارہ خریدا جا سکتا ہے مثلاً  کپڑا لتا، زیور، فرنیچر اور برتن وغیرہ۔  لیکن ذاتی کتب خانہ تتر بتر ہو جائے تو اسے پرانے ڈھب پر قائم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر کتاب کا اپنا رنگ ہوتا ہے، اپنی مہک ہوتی ہے، اپنا زمانہ ہوتا ہے اور کئی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔

آج ہم آپ کو لاہور میں تقسیم کی وجہ سے کتابوں پر گزری قیامت سے جڑے چند قصے سناتے ہیں جن کے ذریعے انسانی رویوں کے باب میں بھی جانکاری ہو سکے گی۔

بات ابن انشا سے شروع کرتے ہیں۔1970 میں ابن انشا نے  احمد بشیر کے ساتھ اندرون لاہور کی خاک چھانی تو  ان گلی کوچوں کے وہ پھیرے ذہن میں در آئے جو کسی زمانے میں یار عزیز اے حمید کے ہم راہ لگائے تھے۔ ایک پرانی دکان دکھائی دی تو انہیں یاد آیا:

‘1948 میں اسی دکان کے تھڑے سے ہمیں اچھی اچھی ۔۔۔گزشتہ صدی کی چھپی ہوئی کئی  کتابیں ملی تھیں۔ اہل علم ہندوؤں کے کتب خانے لاہور کے فٹ پاتھوں پر امڈ آئے تھے اور کوڑیوں کے مول بک رہے تھے۔’

لاہور کے ہندوؤں کی کتابوں اور اردو زبان سے دلچسپی کی کہانی قرۃ العين حيدر نے اپنے ناول ‘ میرے بھی صنم خانے ‘ میں بڑے مؤثر اسلوب میں بیان کی ہے:

‘ڈارلنگ ہمیں ماڈل ٹاؤن میں بہت بڑی سجی سجائی کوٹھی مل گئی ہے۔ اس میں پینتیس ایرانی قالین ہیں…پیانو ہے، ٹینس کورٹ ہے، یہاں تک کہ گیسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔ جانے اتنی شاندار کوٹھی کا مالک بھاگ کر کہاں گیا ہوگا اور آج کل کس حال میں ہوگا۔ لاہور بڑا عمدہ شہر ہے۔ یہ وہ شہر ہے روشنی ڈئیر جہاں بہت بہترین آبنوس اور ٹیک کا فرنیچر ہفتوں سڑکوں کے کنارے الاؤ میں جلایا گیا اور قوم کی معزز لیڈر خواتین کے ہاں سے سینکڑوں ریڈیو سیٹ برآمد ہوئے۔ ہر طرف لوٹ کے مال میں دلہنوں کے جہیز تھے۔ سہرے تھے۔کتابیں تھیں۔ گیتانجلی اور بانگ درا اور میدان عمل۔ ان کتابوں کے انباروں سے معلوم ہوتا  تھا کہ یہاں کے ہندو کتنے خوش ذوق اور اردو کے شائق تھے۔ تقریباً متوسط طبقے کے ہر بھاگے ہوئے ہندو کے گھر میں الماریاں اچھی اچھی اردو کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ہمارے نوکروں نے شروع شروع میں بہت سی کتابوں سے تو چائے بنائی۔’

تقسیم کے بعد لاہور میں پرانی کتابوں کے بیوپاریوں کی چاندی ہو گئی۔ ان کا کاروبار چمک اٹھا۔ علم کے جویا بزرگ و خورد ان کے گاہک بن گئے جس کی ایک نمایاں مثال چراغ حسن حسرت اور مظفر علی سید ہیں۔ مظفر علی سید نے ‘ یادوں کی سرگم’ میں حسرت صاحب سے کتابوں کے ان اڈوں پر ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کی پہلی ملاقات ریگل چوک کے قریب پرانی کتابوں کی ایک دکان پر ہوئی تھی جہاں سے اس دن حسرت نے شیفتہ کا ‘تذکرہ گلشنِ بے خار’ خریدا تھا۔  اسی جگہ دونوں نے ایک بار چائے پی جس کی یاد ذہن میں اس لیے بھی تازہ رہی کہ بقول مظفر علی سید  ‘اس دن کہیں سے لوٹ کے مال میں مشہور کائستھ استاد تاریخ، آشیر بادی لال سریواستو کی فارسی کتابیں بکنے کو آئی تھیں۔’

ابن انشا نے  جن کتابوں کے فٹ پاتھ پر پہنچنے کی بات کی ہے یا قرۃ العين حيدر نے جن کتب کے اوراق جلا کر چائے بنانے کا حوالہ دیا ہے یا مظفر علی سید لوٹ کے جس مال کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ ناقدروں کے ہاتھ لگیں لیکن کتابوں کے ایسے قدر دان بھی تھے جنہوں نے اپنے طریقے سے ناانصافی کی۔

قرۃ العين حيدر نے ماڈل ٹاؤن میں کسی ہندو کی کوٹھی پر قبضے کے تذکرے میں کتابوں کی بے توقیری کا ذکر کیا ہے۔ اس پر ہمیں  گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر بلدون ڈھینگرا کی ماڈل ٹاؤن میں کوٹھی پر قبضہ  اور ان  کی کتابوں پر تصرف بے جا جمانے والے اعجاز بٹالوی کا خیال آیا جن کی قرۃ العين حيدر سے دوستی بھی تھی۔

معروف وکیل اعجاز بٹالوی نے یہ مکان کیسے اپنی ملکیت بنایا، اس کی روداد، ان کے ہمدمِ دیرینہ داؤد رہبر نے ‘تسلیمات’ میں کچھ یوں بیان کی ہے:

‘ایک روز اعجاز بٹالوی بائیسکل پر سوار ہو کر بھاگڑ میں میرے پاس ماڈل ٹاؤن آئے اور کہا کوئی اچھی کوٹھی بتاؤ جسے اس کا ہندو مالک چھوڑ کر بھاگ نکلا ہو ،بٹالہ ادھر رہ گیا ،ہمارا موروثی مکان ہاتھ سے گیا، یہاں اس کی جگہ کوئی مکان الاٹ کرانا ہے، مجھے معاً ڈھینگرا صاحب کے بنگلے کا خیال آیا میں نے اعجاز کو اس بنگلے کی کہانی سنائی اور کہا اس پر فوراً قبضہ کر لو، ابھی تک اس کا سامان لٹا نہیں، یہ علم و فضل والا گھر ہے۔ اسے الاٹ کرانے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہ آئی، اعجاز کے سب سے بڑے بھائی ذوالقرنین صاحب سی آئی ڈی کے چیف تھے۔’

اس  کے ساتھ بھی ایک ہندو کی کوٹھی تھی یہ اعجاز بٹالوی کے بھائی خادم حسین نے الاٹ کروائی۔ قریب ہی ایک اور کوٹھی پر ان کے بہنوئی عبداللہ نے قبضہ جمایا ۔

پروفیسر ڈھینگرا کی معروف صحافی اور پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی خان سے صاحب سلامت تھی جن کے بیٹے اور نامور دانش ور طارق علی نے ایک انٹرویو میں ڈھینگرا صاحب کی بپتا سنائی۔

پروفیسر صاحب تقسیم کے سمے اپنے خاندان کے ساتھ شملے میں تھے۔ فسادات کی وجہ سے وہ لاہور واپس نہ پھر  سکے۔ کئی سال بعد جب ان کی زندگی کا سفینہ کنارے پر آلگا تو انہوں نے اپنی بیٹی کو لاہور یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ اپنے  گھر میں سکونت پذیر شخص سے کہے کہ انہیں صرف اپنی کتابیں چاہییں۔  ڈھینگرا صاحب کی صاحب زادی مظہر علی خان کے ساتھ اعجاز بٹالوی کے اس مکان پر گئی جو کبھی ان کا تھا۔  اعجاز بٹالوی کو آمد کی غایت بتائی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ پروفیسر ڈھینگرا کی کتابیں الماریوں میں محفوظ ہیں۔

طارق علی بتاتے ہیں: ‘لڑکی نے بٹالوی کو بتایا کہ میرا باپ صرف یہ کتابیں واپس چاہتا ہے۔ میں ان میں سے کچھ لے سکتی ہوں؟ بٹالوی نے جواب دیا: نہیں۔ میرے والد لڑکی کو ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے:  آؤ چلتے ہیں، بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔’

داؤد رہبر نے  ‘تسلیمات’ میں پروفیسر صاحب کے گھر کے بارے میں لکھت کے اوپر یہ عنوان جمایا ہے:

پروفیسر بلدون ڈھینگرا کا بنگلہ 83F جو 1947 میں اعجاز بٹالوی کا مسکن قرار پایا.

پروفیسر ڈھینگرا کے بارے میں داؤد رہبر کی تحریر کا لب لباب ہم اپنے الفاظ میں بیان کیے دیتے ہیں۔گورنمنٹ کالج میں داؤد رہبر کے انگریزی کے استاد تھے۔ مادری زبان پنجابی لیکن شاعری انگریزی میں کرتے تھے۔ ماڈل ٹاؤن کے کلب گھر  میں ٹینس کھیلتے تھے اور وہیں بئیر سے شغل فرماتے تھے۔ ماڈل ٹاؤن کی بس پر سفر کے دوران کوئی انگریزی سمجھنے والا ہم سفر مل جاتا تو اس کے ساتھ برٹش لہجے میں انگریزی بول بول کر سواریوں پر رعب گانٹھتے۔ ماڈل ٹاؤن کی کوٹھی انہوں نے انگریزی کاٹیج کے نمونے پر تعمیر کروائی تھی۔ داؤد رہبر کے بڑے بھائی محمد یعقوب کے بھی استاد تھے لیکن استادی شاگردی کا رشتہ دوستی میں بدل گیا۔ وہ ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں پہاڑی مقام پر گزارتے تھے جہاں جاتے ہوئے  ہمسایوں سے بنگلے کا خیال رکھنے کا کہہ جاتے۔ 1945اور 1946 میں بنگلے کی رکھوالی داؤد رہبر کے بھائی محمد یعقوب نے کی لیکن 1947 میں وہ اسے تین ماہ کے لیے کسی سکھ کو کرائے پر دے گئے جو حالات کی وجہ سے اسے چھوڑ کر بھاگ نکلا۔

 اس کے بعد ان کے شاگردِ رشید کی تجویز پر ان کے دوست نے کارروائی ڈالی۔

ایک معروف قانون دان کی انصاف پسندی آپ نے دیکھ لی۔ اب دو وکیلوں کی کہانی اور سن لیں۔

امولک رام کپور لاہور کے نامور وکیل تھے۔ انہوں نے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کا مقدمہ بھی لڑا تھا۔ بھگت سنگھ پر اپنی کتاب ’دی ایگزیکیوشن آف بھگت سنگھ‘ میں ستویندر سنگھ جَس نے ان کے کردار کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔

 امولک رام کپور کی کوٹھی لاہور ہائیکورٹ کے جوار میں 4 فین روڈ پر واقع تھی جو تقسیم کے بعد میاں محمود علی قصوری کو الاٹ ہوئی۔ اس گھر میں بڑی شان دار لائبریری تھی جس کے نئے مکین نے کتابیں اصل مالک تک پہنچا دیں۔

حق بحقدار رسید

اس عمل نے امولک رام کے دل میں گھر کرلیا۔ انہوں نے قصوری کو خط میں لکھا:

‘آپ کے لیے میرے دل سے دعا نکلتی ہے۔’

محمود علی قصوری نے امانت میں خیانت نہیں کی۔ ان کی دیانت کی وجہ سے امولک رام اور قصوری خاندان کے بیچ خوشگوار تعلقات قائم ہوئے جو اگلی پیڑھیوں میں بھی  فروغ پاتے رہے۔

ستویندر سنگھ کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ محمود علی قصوری کے صاحب زادے اور سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کی 2015 میں دلی میں امولک رام کپور کی بیٹی سے ملاقات بھی ہوئی اور پھر ان کی صاحبزادی یعنی امولک رام کپور کی نواسی نے لاہور میں خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کی۔ اس سے پہلے وہ خورشید قصوری کے چھوٹے بھائی کی دعوت پر  4 فین روڈ پر اپنے نانا کے گھر  قیام بھی کر چکی تھیں۔

اعجاز بٹالوی نے اپنی بداخلاقی سے پروفیسر بلدون ڈھینگرا اور ان کی بیٹی کا دل دکھایا ۔ سوال تو یہ ہے کہ  ایک پروفیسر جس کے عالی شان مکان پر آپ نے قبضہ کر لیا ہو کیا وہ اپنی کتابوں کا بھی حق دار نہ تھا؟ آپ کے کتابیں دینے سے انکار پر اس کے دل پر کیا گزری ہو گی؟

محمود علی قصوری کے اچھے عمل سے جو مثبت اثرات پیدا ہوئے اس کا احوال آپ جان ہی چکے ہیں ۔ اب آخر میں 4 فین روڈ کے بارے میں یہ بتادیں کہ 1947 کے بعد 1987 میں محمود علی قصوری کے انتقال تک یہ گھر لاہور میں سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ رہا۔ بڑے بڑے سیاستدان یہاں آتے رہے۔ لیکن اس گھر کو سیاست میں مرکزی حیثیت ضیاء الحق کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت کے دوران ملی جس کے قیام میں محمود علی قصوری پیش پیش تھے۔ اس گھر کی سیاسی اہمیت کا تذکرہ سید افضل حیدر نے  اپنی کتاب ‘تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی)’میں بھی کیا ہے:

‘پنجاب میں ایم  ار ڈی کا پہلا باقاعدہ اجلاس 27 فروری 1981 کو فین روڈ لاہور میں  میاں محمود علی قصوری کے مکان پر منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے بیگم نصرت بھٹو کراچی سے لاہور بذریعہ ٹرین  برقع پہن کر  آئی تھیں۔ ان کا قیام لاہور میں حامد محمود کے گھر میں تھا۔ تانگے میں بیٹھ کر بیگم نصرت بھٹو فین روڈ پہنچیں۔بیگم صاحبہ کی لاہور آمد حکومت کی ایجنسیوں کی شکست تھی … ایم آر ڈی کی تشکیل میں ایک اور بھاری بھرکم شخصیت میاں محمود علی قصوری کی تھی۔ انہوں نے اس اتحاد کو بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا…ان کا فین روڈ والا گھر تاریخی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اہم تاریخی اجتماع اور فیصلے ان کی رہائش گاہ پر ہوئے تھے۔’

صاحبو!  بھگت سنگھ کے وکیل کے گھر کی شان یہی ہونی چاہیے تھی کہ اسے محمود علی قصوری نے ضیاء آمریت کے خلاف مورچہ بنا دیا۔ ادھر بلدون ڈھینگرا کے مکان کے پاکستانی مالک مسٹر اعجاز بٹالوی نے ضیاء دور میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل میں سرکاری وکیل بن کر عزت گنوائی۔ حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنے کردار و عمل سے  ہی چھوٹا بڑا بنتا ہے ورنہ کتابوں سے بھری الماریاں بھی کسی کام نہیں آتیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp