اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں 2.5 فیصد کمی کردی ہے۔ رواں برس 10 جون کے بعد سے شرح سود میں مجموعی طور پر 5.5 فیصد کمی کی گئی ہے جو 22.5 فیصد سے کم ہو کر اب 15 فیصد پر آ گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شرح سود میں 2.5 فیصد کمی، اسٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا
پاکستان میں گزشتہ تقریباً 2 برسوں کے دوران نہ صرف گاڑیاں مہنگی ہوئیں بلکہ شرح سود میں بھی اس قدر اضافہ ہوا کہ بینک سے گاڑیاں لینا عوام کے لیے ناممکن ہو گیا تھا جس کے سبب گاڑیوں کی خریدوفروخت پر بری طرح اثر ہوا۔ چونکہ شرح سود اب 15 فیصد پر آگئی ہے اس لیے اب قومی امکان ہے کہ گاڑیوں کی خریدوفروخت میں بھی اضافہ ہوگا۔
وی نیوز نے ماہرین سے بات کی اور جاننے کی کوشش کی کہ شرح سود میں کمی کے بعد کیا اب گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چئیرمین ایم اکبر شہزاد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلے ہی اتنی مہنگی گاڑیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ فروخت نہیں ہو رہیں۔
انہوں نے کہا کہ شرح سود کے کم ہونے سے گاڑیوں کی فروخت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوگی کیوں کہ 60 لاکھ روپے کی گاڑی کی قیمت اب ایک کروڑ روپے ہو اور اس پر سود بھی ہو تو وہ کون لے سکے گا۔
مزید پڑھیے: شرح سود میں کمی کے عام آدمی اور معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟
ایم اکبر شہزاد نے کہا کہ پاکستان میں جب تک گاڑیاں بننے نہیں لگیں گی وہ عوام کے بجٹ میں نہیں آئیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں جو گاڑی 31 لاکھ روپے کی ہے وہ بھارت میں 12 لاکھ روپے کی ہے یعنی آدھی قیمت سے بھی زیادہ کا فرق ہے جبکہ وہاں دنیا کی 55 گاڑیاں بن رہی ہیں اور پاکستان میں اب تک گاڑیاں صرف اسمبل ہی ہو رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گاڑی جتنی مہنگی ہے اس سے زیادہ اس پر سود ہے اب جب کہ لوگوں کے لیے بجلی اور گیس کے بل دینا ہی مشکل ہو چکا ہے وہ گاڑی کیسے خرید سکتے ہیں۔
چئیرمین کار ڈیلرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ اس چیز کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ کمپنیوں کی جانب سے 0 فیصد انٹریسٹ ریٹ پر بھی گاڑی قسطوں پر دینے کی آفرز دی گئی ہیں اسی طرح کچھ کمپنیوں کی گاڑیاں 25 لاکھ روپے تک سستی بھی کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی گاڑیاں فروخت نہیں ہو رہیں تو بات صرف سود کی نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ گاڑیاں پاکستان میں حد سے زیادہ مہنگی ہیں۔
پاک وہیلز کے سربراہ سنیل سرفراز منج نے وی نیوز کو بتایا کہ شرح سود میں کمی کے بعد گاڑیوں کی فروخت پر فرق تو پڑے گا لیکن بہت زیادہ نہیں کیونکہ اسٹیٹ بینک نے یہ رول نکالا تھا کہ کسی کو بھی 30 لاکھ روپے سے زیادہ کی فنانسنگ نہیں ملے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب گاڑیاں اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ 30 لاکھ روپے کی فنانسنگ ایک ایک کروڑ روپے کی گاڑیوں کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ جس کو ایک کروڑ روپے کی گاڑی لینی ہو اور وہ 70 لاکھ روپے کر سکتا ہو تو پھر باقی کے 30 لاکھ روپے بھی خود ہی اکٹھے کر لے گا لہٰذا وہ 30 لاکھ روپے لے کر کیا کرے گا۔
سنیل سرفراز منج نے کہا کہ فنانسنگ پر یہ 30 لاکھ روپوں کا بیرئیر ایک بڑا مسئلہ تو ہے لیکن ظاہر ہے کہ انٹریسٹ ریٹ کے کم ہونے سے تھوڑا بہت فرق تو پڑے گا۔
مزید پڑھیں: چینی کمپنی بی وائی ڈی نے 2 الیکٹرک گاڑیاں پاکستان میں متعارف کرادیں
دوسری جانب مسلم کمرشل بینک کے آٹو سیلز آفیسر عدنان علی نے وی نیوز کو بتایا کہ شرح سود میں کمی کے بعد اب امید کی جا رہی ہے کہ گاڑیوں کی فروخت کا کام تیز ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آنے والے کچھ مہینوں میں شرح سود میں مزید کمی ہوگی جس سے گاڑیوں پر انٹریسٹ ریٹ کم ہوگا اور لوگ خریداری میں دلچسپی لیں گے۔
آلٹو ایکس پر شرح سود کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پہلے اس پر انٹریسٹ ریٹ 16 لاکھ روپے تھا جو کم ہو کر 10 لاکھ روپے پر آ چکا ہے جب کہ اسی طرح کلٹس کی شرح سود میں 8 سے 9 لاکھ روپے کی کمی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب سے شرح سود میں کمی ہوئی ہے گاڑیوں کے حوالے سے معلومات لینے والوں کی تعداد میں تقریباً 7 فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ اس سے قبل مارکیٹ اتنی ڈاؤن تھی کہ بہت ہی مشکل سے کوئی اس بارے میں پوچھتا تھا اور اُس وقت اتنے مہنگے انٹریسٹ ریٹ پر گاڑی لینا بھی بیوقوفی تھی تاہم اب امید کی جا رہی ہے کہ شرح سود کچھ مہینوں میں 9 سے 10 فیصد پر آ جائے گی۔
پاکستان میں گاڑیاں کیوں مہنگی ہیں؟
اس حوالے ایم اکبر شہزاد نے بتایا کہ پاکستان میں گاڑی کی قیمت زیادہ ہونے کی چند وجوہات ہیں جن میں ایک تو یہاں گاڑیاں صرف اسمبل کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے گاڑیوں کے پارٹس امپورٹ ہوتے ہیں جس کے لیے ڈالرز چاہیے ہوتے ہیں اور ڈالر مہنگا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے بہت زیادہ ٹیکسز بھی ہیں۔ اس لیے جب تک تمام سیکٹرز آپس میں بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نہیں نکالیں گے اس وقت تک پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں کی یہی صورتحال رہے گی۔