لاہور ہائیکورٹ نے اشیائے ضروریہ کی عدم دستیابی کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے رمضان بازاروں کے لیے 2ارب کی مختص کردہ رقم کے اخراجات کی تفصیلات طلب کر لیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے رمضان بازاروں کے لیے مختص کردہ رقم اب کہاں استعمال ہوگی۔
عدالت نے نگران پنجاب حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب تو رمضان ہی ختم ہونے جا رہا ہے، یہ پیسہ کیسے ضائع کیا جاسکتا ہے، بتایا جائے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کےتحت تقسیم کیوں نہیں کی گئی؟
نگران حکومت پنجاب نے رمضان پیکج کےلئے 2ارب روپے کےمختص فنڈز کی تفصیلات عدالت میں پیش کردیں، جس پر عدالت نے مزید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیکج تو رمضان کے لیے جاری ہوا تھا، کیا اسے لاگو تب کریں گے جب رمضان گزر جائے گا؟
سرکاری وکیل نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس بار فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی سمری آئی تھی کہ سبسڈی صرف آٹے پردی جائے۔
عدالت نے سوال کیا کہ کس قانون کےتحت سبسڈی صرف آٹے پردینےکا فیصلہ کیا گیا؟؟
محکمہ خوراک افسر نے اپنے موقف میں کہا کہ گندم ریلیز پالیسی کے تحت گندم فلور ملز کو فروخت کی جاتی ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ قانون گندم کی فروخت کا ہے تو فلور ملز سے آٹا کس قانون کےتحت لیا گیا؟ عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تذلیل کرکے سبسڈی دینے کے بجائے فلور ملوں کے ذریعے سب کو سبسڈی دینا مناسب تھا۔ اگر ٹارگٹڈ سبسڈی دینا ہی تھی تو بے نظیر انکم سپورٹ میں 1000، 1500روپے اضافی بھجوا دیتے۔ جو مستحقین رجسٹرڈ نہیں تھے تو انہیں رجسٹرڈ کرتے۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذمہ دار افسران کو طلب کرلیا اور کہا کہ لائنوں میں لگوا کر دنیا کو کیا بتا رہے ہیں کہ یہ بھکاری ہیں؟ نگران حکومت کو کسی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں ہے۔ نگران وزیراعلیٰ کے اپنے چینل پر 2،2گھنٹے کے پروگرام کیے گئے۔