فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے 2 بار انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ میں توسیع کے باوجود بھی ہدف پورا نہیں ہوسکا۔
31 اکتوبر کو انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ کے بعد ایف بی آر کے مطابق تقریباً 51 لاکھ سے زیادہ افراد ٹیکس ریٹرن جمع کرا چکے ہیں۔ تاہم 19 لاکھ 38 ہزار 615 افراد نے 2024 کے لیے نِل ریٹرن فائل کی۔
یہ بھی پڑھیں 2024 میں کتنے پاکستانیوں نے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے؟
ماہرین کے مطابق رواں مالی سال کے لیے دسمبر تک کا مقررہ ہدف پورا نہ ہوا تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے اگلی قسط کی وصولی میں مشکلات ہوں گی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے جاری کردہ انکم ٹیکس آرڈر میں کہا گیا تھا کہ ٹیکس ادا اور فائل نہ کرنے والوں کی سم بلاک کردی جائے گی، اور اس سلسلے میں ایف بی آر نے 5 لاکھ 6 ہزار 671 نان ٹیکس فائلرز کا ڈیٹا بھی جاری کیا تھا۔
حکومت کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی، لیکن اس کے باوجود بھی دسمبر تک ہدف مکمل کرنا حکومت کے لیے مشکل بن رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو مزید کیا کڑے اقدامات کرنا ہوں گے کہ حکومت ٹیکس اہداف کو پورا کر پائے؟
’ایف بی آر کی کارکردگی گوشواروں کی حد تک بہتر ہے‘
اس حوالے سے معاشی تجزیہ کار شہباز رانا نے وی نیوز کو بتایا کہ اس وقت 51 لاکھ 30 ہزار انکم گوشوارے جمع ہوئے ہیں، جس میں ٹیکس پیئرز نے 130 ارب روپے کے ٹیکسز بھی ادا کیے ہیں۔ اگر گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس بار کو مد نظر رکھا جائے تو جو ٹیکس پیمنٹس ہیں، اس میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، اور جو ٹیکس گوشوارے گزشتہ برس کے مقابلے میں جمع ہوئے ہیں وہ بھی دگنے ہیں، اس لحاظ سے ایف بی آر کی کارکردگی گوشواروں کی حد تک بہتر ہے۔
انہوں نے کہاکہ ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے حکومت کے پاس آپشن یہ ہے کہ گزشتہ برس جن لوگوں نے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے تھے لیکن اس سال نہیں جمع کروائے ان کے خلاف ایکشن لیا جائے، جس میں ان کی سمز کو بلاک کرنا اور ان کے یوٹیلیٹی کنکشنز کو فوری طور پر معطل کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق دوسرا قدم حکومت کو یہ اٹھانا چاہیے کہ وہ لوگ جنہیں ٹیکس نیٹ میں آنا چاہیے اور وہ نہیں آ رہے، اور ایف بی آر کے پاس ان کے بارے میں معلومات ہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
’یہ بات درست ہے کہ 51 لاکھ گوشوارے جمع ہوئے ہیں، لیکن پاکستان میں انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے والے پوٹینشل افراد کی تعداد تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ ہے، ان تمام افراد کو انکم ٹیکس جمع کروانا چاہیے‘۔
’جن لوگوں کے پاس زیادہ دولت ہے وہ اپنی آمدن کو واضح ہی نہیں کرتے‘
معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مہتاب حیدر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت 5 ملین سے زیادہ افراد نے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سے 2.9 ملین وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ریٹرنز تو جمع کروائے ہیں لیکن وہ نل ریٹرن ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہماری اتنی انکم ہی نہیں ہے کہ جس پر ٹیکس ہو، تو یہ بنیادی مسئلہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں ملک کے تنخواہ دار افراد نے مجموعی طور پر کتنا ٹیکس ادا کیا؟
انہوں نے کہاکہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس پیسے زیادہ ہیں، وہ اپنی پوری آمدن کو واضح ہی نہیں کرتے یا جہاں جہاں وہ ٹیکس کو نظر انداز کرسکتے ہیں وہ ضرور کرتے ہیں۔ جبکہ تیسری بات یہ ہے کہ جب تک اس ملک میں کاروباری سرگرمیاں نہیں ہوں گی تو ٹیکسز اکٹھا کرنا بہت مشکل ہوگا۔ کیونکہ کوئی کاروباری سرگرمی ہوگی تو ہی اس کے بدلے میں ٹیکس آئے گا۔
’اب ضرورت ہے کہ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے اور اس کو فروغ دینا بنیادی طور پر پرائیویٹ سیکٹر کا کام ہے۔ اور یہی وہ ایک چیز ہے جس کی ملک میں کمی ہے، جب تک کاروباری سرگرمیاں نہیں ہوں گی اس وقت تک ٹیکس کا ہدف پورا نہیں ہوسکتا‘۔
انہوں نے مزید کہاکہ آئندہ آنے والے دنوں میں بھی ٹیکس شارٹ فال نظر آتا رہے گا، حکومت نے لوگوں سے ٹیکس لینے کے لیے سختی کی ہے جس میں سم بلاک کرنا بھی شامل ہے، لیکن یہ شارٹ ٹرم پالیسی ہے، طویل المدتی حل اس کا صرف یہی ہے کہ کاروباری سرگرمیوں کو بڑھایا جائے۔
’حکومت کا نیا آرڈیننس لانے کا فیصلہ‘
انہوں نے کہاکہ حکومت ایک ایسا آرڈیننس لانے کی تیاری میں ہے جس کے ذریعے اگر آپ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم آپ کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی تو اکاؤنٹ فریز کردیا جائے گا، آپ کوئی گاڑی نہیں خرید سکیں گے، اس کے علاوہ ایک کروڑ سے زیادہ مالیت کا پلاٹ بھی نہیں خریدا جاسکے گا۔
انہوں نے کہاکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے سیشنز ختم ہونے کے آئندہ چند ہفتوں کے دوران ہی حکومت یہ آرڈیننس پیش کرتی ہوئی نظر آئے گی۔
’2025 مالی سال کا ٹیکس ہدف گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے‘
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے اس حوالے سے بتایا کہ پاکستان کا مالی سال 2025 کا ٹیکس ہدف جو 13 ٹریلین کے قریب ہے گزشتہ برس کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ جب ایک بجٹ ٹارگٹ ایسا سیٹ کیا گیا ہو، جس کو پورا کرنے کے لیے جو ٹیکسز لگائے گئے ہیں وہ ناکافی ہوں تو اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے ہمیں بہت سے نئے ٹیکسز کا نفاذ کرنا پڑےگا۔
یہ بھی پڑھیں کتنے ٹیکس گوشوارے جمع کرادیے گئے، رقم کتنی آئی؟
انہوں نے کہاکہ پہلے 4 ماہ کے ٹیکس ٹارگٹ میں 190 ارب روپے کا شارٹ فال ہے جو میں سمجھتا ہوں مجموعی طور پر بڑھ رہا ہے کیونکہ 40 فیصد گروتھ آج کی معیشت میں ذرا مشکل ہے۔