10 نومبر 2024 کو ایک بار پھر 19 جون 2002 کی یادیں تازہ ہوگئیں، جب پاکستان نے پہلی مرتبہ باہمی ایک روزہ سیریز میں آسٹریلیا کو اس کے گھر میں شکست سے دوچار کیا تھا، اور آج تاریخ میں دوسری مرتبہ آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہم نے ایک روزہ سیریز میں شکست دی، بلکہ ہمیں یوں کہنا چاہیے کہ پاکستان نے آسٹریلیا کو صرف ہرایا نہیں بلکہ پچھاڑا ہے۔
2002 میں بھی ہمیں پہلے میچ میں شکست ہوئی تھی اور پھر باقی 2 میچ ہم جیت گئے تھے اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے، لیکن دونوں مواقعوں میں فرق یہ ہے کہ 2002 میں آسٹریلیا جیت کے قریب پہنچا تھا، مگر اس بار ہم نے جیت کے قریب بھی نہیں آنے دیا۔
2002 میں ہم نے دوسرا ون ڈے محض 2 وکٹوں سے جیتا تھا مگر اس بار ہم ایک میچ 9 وکٹوں سے جیتے تو دوسرا 8 وکٹوں سے، اور سچ یہ ہے کہ میں نے آسٹریلیا کو اپنے گھر میں اتنا بے بس کبھی نہیں دیکھا۔ ویسے تو ہم کلین سوئپ کے بہت ہی قریب پہنچ گئے تھے مگر آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے اپنی ٹیم کو اس رسوائی سے بچا لیا، اگر وہ مشکل وقت میں ٹیم کا سہارا نہیں بنتے تو پہلا ون ڈے بھی ہم جیت ہی چکے تھے
اس سیریز سے قبل وسیم اکرم کا بیان مجھے یاد آگیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر موجودہ پاکستان ٹیم آسٹریلیا میں ایک میچ بھی جیت جائے تو یہ بہت ہوگا، مگر ہم نے اس ’بہت‘ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند ہی دنوں میں ایسا کیا ہوگیا کہ ہم زمین سے آسمان پر پہنچ گئے؟ سوال بہت اہم ہے لیکن شاید اس کا کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ متعدد ایسے کام ہوئے جس نے کارکردگی کو چار چاند لگادیے۔
سب سے پہلے تو کپتان کی تبدیلی کا عنصر ہے۔ ہم نے کئی سال بابر اعظم کے ساتھ لگادیے، بار بار خراب نتائج کے باوجود ہم نے اس فیصلے پر غور کرنے سے متعلق نہیں سوچا اور اگر اب بھی ان کی اپنی کارکردگی خراب نہ ہوتی تو ہم بابر اعظم کی کپتانی میں مزید رسوا ہورہے ہوتے، لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ جو ہوتا ہے بہتری کے لیے ہی ہوتا ہے تو بابر اعظم کی فارم بالکل ٹھیک وقت پر گئی اور اس کے بعد کئی اہم فیصلے ہوگئے۔
دوسرا پہلو اہم کھلاڑیوں کو ڈراپ کرنے کا رہا۔ جب انگلینڈ کے خلاف بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو ڈراپ کیا گیا تو یہ فیصلہ صرف شائقین کرکٹ کے لیے حیران کن نہیں تھا بلکہ ان تینوں کھلاڑیوں کے لیے بھی ناقابل یقین رہا ہوگا۔ ان تینوں نے بھلا کب سوچا ہوگا کہ انہیں بھی ٹیم سے ڈراپ کیا جاسکتا ہے، مگر اس ایک فیصلے نے تینوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر اچھا کھیلیں گے تب ہی ٹیم میں رہ سکتے ہیں، خاندانی حق یہاں کسی کو حاصل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ واپسی پر تینوں مختلف نظر آئے۔ شاہین شاہ آفریدی جو کچھ وقت سے بالکل ناکام رہے تھے، انہوں نے آسٹریلیا میں ایک بار پھر ابتدائی اوورز میں وکٹیں لینا شروع کردیں جو قومی ٹیم کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئیں۔ اسی طرح نسیم شاہ نے بھی بھرپور جان لگائی اور جب ان تینوں کو ڈراپ کیا تو حارث رؤف نے بھی آگ کو محسوس کرنا شروع کیا اور اسی آگ کے اثرات ان کی کارکردگی میں نظر آنا شروع ہوگئے۔
اس کے علاوہ کپتان اور ٹیم انتظامیہ اس حوالے سے بھی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے پہلے ہی میچ میں ناکامی کے بعد اوپنرز کو تبدیل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا، اگر ایسا ہوجاتا تھا شاید ہمیں وہ نتائج نہ ملتے جس پر آج ہم نازاں ہیں۔
آخر میں کپتان محمد رضوان کو الگ سے مبارکباد دی جانی چاہیے۔ ان کے اعتماد اور بہترین فیصلے نے پہلی مرتبہ ہمیں آسٹریلیا کے خلاف کسی سیریز کے ہر میچ میں 10 وکٹیں لینے کا اعزاز بخشا، صرف یہی نہیں بلکہ یہ کام مکمل 50 اوورز سے پہلے ہی ہم نے کیا۔ انہوں نے روایتی کپتانی کو ترک کرکے اپنے اہم ترین بولرز کو آخر کے لیے بچا کر نہیں رکھا بلکہ جارحانہ کپتانی کرتے ہوئے وکٹیں لینے پر توجہ مرکوز رکھی اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے۔
امید اور دعا تو یہی ہے کہ ہم اس کارکردگی کا مظاہرہ ٹی20 سیریز میں بھی جاری رکھیں اور پہلی مرتبہ آسٹریلیا کو اس کے گھر میں ٹی20 سیریز میں شکست دے سکیں۔