خیبر پختونخوا پولیس نے پشاور لائنز مسجد حملے میں اندرونی ہاتھ ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے دہشتگردوں کی مدد کرنے والے پولیس اہلکار کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جو کئی سالوں سے کالعدم تنظم کے لیے کام کرتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور پولیس لائن دھماکا کیس میں پیشرفت، مبینہ سہولت کار پولیس اہلکار گرفتار
پشاور میں سی ٹی ڈی ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کرکے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات گنڈاپور نے بتایا کہ تقربیا پونے 2 سال قبل ملک سعید شہید پولیس لائنز پشاور میں ہونے والے خودکش دھماکے میں حملہ اور کو گرفتار پولیس اہلکار نے مسجد تک پہنچانے میں مدد کی تھی۔
گرفتار پولیس اہلکار نے کس کالعدم تنظیم میں شمولیت اختیار کی؟
آئی جی پولیس اختر حیات نے پولیس کانسٹیبل کی گرفتاری کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے بتایا ہے کہ دھماکہ میں خودکش حملہ آور کی سہولت کاری کرنے والے ملزم پولیس کانسٹیبل کو پونے 2 سال بعد پشاور سے گرفتار کیا گیا ہے۔
صوبائی پولیس سربراہ کے مطابق گرفتار پولیس کانسٹیبل کا نام محمد ولی عرف عمر ہے، جس کے قبضہ سے 2 خودکش جیکٹ بھی برآمد ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں: پشاور پولیس لائنز حملے کا ماسٹر مائنڈ دہشت گرد سَربکف مہمند پُر اسرار طور پر ہلاک
’سہولت کار پولیس کانسٹیبل کی گرفتاری سے قبل ایک اور سہولت کار امتیاز عرف تورہ شپہ کو 17 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا جو بنیادی طور پر خودکش بمبار کا بیک اپ تھا، دوسرا سہولت کار پولیس کانسٹیبل محمد ولی تھا، جس نے تین سال قبل جماعت احرار میں شمولیت اختیار کی تھی۔‘
آئی جی پولیس خیبر پختونخوا نے بتایا کہ پولیس کانسٹیبل محمد ولی محکمہ سے چھٹی لے کر افغانستان گیا اور جماعت احرار کے کمانڈروں سے ملاقات کی، جنوری 2023 میں ملزم کانسٹیبل نے پولیس لائنز کا نقشہ اور تصویریں ٹیلی گرام پر افغانستان بھیجیں۔
خودکش حملہ آور پولیس لائنز کیسے پہنچا؟
آئی جی پولیس اختر حیات نے بتایا کہ سہولت کار نے خودکش بمبار کو پیر زکوڑی پل کے پاس چھوڑا جس کے بعد بمبار پولیس لائنز پہنچا جبکہ پولیس کانسٹبل نے خودکش دھماکے کی اطلاع ٹیلی گرام پر دی، جس پر اسے 2 لاکھ روپے افغانستان سے ہنڈی حوالہ کے ذریعہ انعام کے طور پر دیے گئے۔
مزید پڑھیں: پشاور: خودکش حملہ کی ایف آئی آر میں نئی دفعات شامل
آئی جی پولیس کے مطابق گرفتار ملزم نے 2020 میں ایک پادری کو ٹارگٹ کیا اور وارسک روڈ پر پولیس دھماکوں کی سہولت کاری بھی کی، فروری 2024 میں ملزم نے سیف اللہ نامی ملزم کو پستول فراہم کیا، جس سے ایک قادیانی کو قتل کیا گیا۔
آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم کانسٹیبل محمد ولی کے روابط پنجاب تک پھیلے ہوئے ہیں، اسی طرح مارچ 2024 میں ملزم کانسٹیبل نے فیضان بٹ کو پستول دیا جس سے دہشت گرد نے لاہور میں 2 پولیس اہلکاروں کو شہید کیا۔
مزید پڑھیں: افغان گلوکارہ حسیبہ نوری کا پشاور میں مبینہ قتل، اصل معاملہ کیا ہے؟
’اب تک پولیس کے کسی دوسرے اہلکار کے دہشت گردوں سے روابط کے ثبوت نہیں ملے، ہنڈی حوالہ کو کنٹرول کرنے کےلیےحکومت کے دیگر ادارے کارروائیاں کررہے ہیں۔‘