سابق وفاقی محتسب یاسمین عباسی کیخلاف توہین عدالت کے معاملہ پر سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وفاقی محتسب کو جواب کے لیے مہلت دیدی، بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان بولے؛ اگر کوئی فورم اختیار کے بغیر کارروائی کرے تو ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار ہے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس امین الدین خان نے سابق وفاقی محتسب یاسمین عباسی کے پیش نہ ہونے پر توجہ دلائی تو جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ وہ گزشتہ سماعتوں پر وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہوتی رہی، جس پر جسٹس مندوخیل بولے؛ یاسمین عباسی اب وفاقی محتسب نہیں رہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ میں آئینی بینچ فعال، قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف درخواست خارج
جسٹس مسرت ہلالی بولیں؛ سوال یہ ہے کیا وفاقی محتسب کاروائی ہائیکورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے؟ جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی فورم اختیار کے بغیر کارروائی کرے تو ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ معاملہ ابھی تو غیر موثر نہیں ہوا، ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے باوجود وفاقی محتسب مقدمہ چلاتی رہی، یاسمین عباسی کو نوٹس کرکے کارروائی سے آگاہ کیا جائے۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ: آئینی بینچ کے سامنے 34 مقدمات سماعت کے لیے مقرر، اہم کیسز شامل
جسٹس محمد علی مظہر کے مطابق حکم امتناع کے بعد محتسب کی کارروائی توہین عدالت تھی، لاہور ہائیکورٹ کے جج اور وفاقی محتسب دونوں نے ایک دوسرے کو توہین عدالت نوٹسز جاری کیے۔
دوسری جانب جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا نوٹس چیئرپرسن وفاقی محتسب کو جاری کیا گیا چونکہ یاسمین عباسی اب وفاقی محتسب نہیں رہیں لہذا موجودہ وفاقی محتسب کو نوٹس کیا جائے۔
مزید پڑھیں:آئینی بینچز کی تشکیل اور مقدمات کی سماعت سے متعلق سپریم کورٹ کے ججز بھی منتظر
آئینی بینچ نے وفاقی محتسب کے وکیل کو معاملہ پر ہدایات لیکر جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ وفاقی محتسب یاسمین عباسی کو خاتون کیخلاف ہراسگی کی کارروائی سے لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج منصور علی شاہ نے روک دیا تھا تاہم وفاقی محتسب نے حکم امتناع پر جسٹس منصور کو توہین عدالت کے نوٹس سمیت گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تھے۔