رومانیہ کا ایک شادی شدہ جوڑا نئی زندگی کی امید لیے 5 برس قبل کینیڈا پہنچا تھا لیکن انکے سنہرے مستقبل کا خواب ایک اندوھناک انجام پر اختتام پذیر ہوا۔ میاں بیوی اور ان کے 2 بچوں کی لاشیں دریا سینٹ لارنس کے یخ بستہ پانی سے ملیں۔ پولیس کے مطابق یہ بد قسمت خاندان بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے خاندان کے ساتھ امریکا پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا۔
رومانیہ کے شہری فلورن اور ان کی اہلیہ کرسٹینا ایورڈاچے قریباً 5 برس قبل ٹورنٹو پہنچے تھے۔ یہ دونوں 2018 میں کینیڈا میں پناہ کی غرض سے آئے تھے۔ جوڑے کا تعلق روما برادری سے تھا۔ یہ وہ قبیلہ ہے جسے رومانیہ اور یورپ کے کچھ حصوں میں پسند نہیں کیا جاتا اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
فلورن کے وکیل پیٹر ایویانی نے کینیڈین میڈیا کو بتایا کہ روما برادری کے بہت سے لوگوں کی طرح فلورن کو بھی رومانیہ میں اچھی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ تعمیراتی کام (مزدوری) کرنے پر مجبور تھے۔ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جوانی میں کئی بار جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ لہٰذا جب کینیڈا نے رومانیہ کے شہریوں کے لیے ویزے کی پابندی ختم کر دی تو دیگر افراد کی طرح وہ بھی اس سکیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کنییڈا آ گئے۔
فلورن اپنی پناہ کی پہلی درخواست کی سماعت پر پیش نہ ہو سکا یوں ان کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔ 2018 میں ہی امریکی حکام نے فلورن کو گرفتار کر لیا تھا کیونکہ وہ غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ فلورن نے 2020 میں دوسری مرتبہ امریکا میں پناہ کی درخواست دی لیکن انہیں بیوی اور بچے سمیت پھر روک لیا گیا جب وہ امریکا داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
روزنامہ ٹورنٹو سٹار کے مطابق اس خاندان کو ریاست واشنگٹن سے گرفتار کرکے واپس کینیڈا بھیج دیا گیا تھا، جہاں پہنچنے پر فلورن کو حراست میں لیا گیا۔ دورانِ حراست فلورن نے کہا کہ وہ امریکا میں پناہ لینے کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ ان کا خاندان کینیڈا اور امریکا کی درمیانی سرحد کے قریب کینیڈا میں ہی ایک پارک میں آ رہا تھا جہاں وہ ان سے ملنے جا رہے تھے، لیکن جی پی ایس کی خرابی کی وجہ سے وہ حادثاتی طور پر سرحد پار کر گئے تھے۔
تاہم کینیڈین امیگریشن اور پناہ گزینوں کے نگران بورڈ کے سرکاری وکیل نے فلورن پر یقین نہیں کیا۔ ایویانی نے گذشتہ برس فلورن کے خاندان کے ساتھ دوبارہ رابطہ شروع کیا تاکہ ان کی ممکنہ ملک بدری سے قبل آخری اپیل کرکے کینیڈین حکام کے سامنے یہ ثابت کیا جائے کہ اگر فلورن کو ملک بدر کر دیا گیا تو ان کا خاندان خطرے میں پڑ جائے گا۔
لیکن مارچ 2022 کے آخر میں فلورن کو پتا چلا کہ ان کی بے دخلی کے خلاف دی جانے والی دونوں درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔ اور پھر گذشتہ ہفتے میاں بیوی اور ان کے 2 کینیڈین نژاد بچوں کی لاشیں امریکا اور کینیڈا کی سرحد کے قریب دریائے سینٹ لارنس سے ملیں۔ بچوں کی عمر ایک اور 2 سال تھی۔
اس خاندان کے علاوہ دریا سے بھارت سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ پروان چوہدری، ان کی بیوی 45 سالہ دکھشا، ان کے 20 سالہ بیٹے مِیت اور ان کی 24 سالہ بیٹی ودھی کی لاشیں بھی برآمد ہوئی تھیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں خاندان امریکا پہنچنے کی کوشش میں اس وقت ہلاک ہو گئے جب ان کی کشتی الٹ گئی۔ کینیڈین پولیس اب بھی اس 30 سالہ مقامی ملاح، کیسی اوکس کو تلاش کر رہی ہے، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اس واقعے سے اس کا تعلق ہو سکتا ہے۔
ایویانی کہتے ہیں کہ انہیں اس بات کو کوئی علم نہیں تھا کہ فلورن اور ان کا خاندان اس خطرناک سفر کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ وکیل کے مطابق اس خاندان نے کینیڈا سے بے دخلی کے خطرے کی وجہ سے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ کیوں کہ فلورن نے 2 بچوں کی پیدائش کے بعد اپنے خاندان کے لیے محفوظ زندگی کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
فلورن نے نہ صرف کینیڈا میں اپنے اور اپنی اہلیہ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی بلکہ وہ اپنے بچوں کو اس ظلم وستم اور امتیازی سلوک سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے جس کا سامنا وہ خود رومانیہ میں کر چکے تھے۔