وزیراعظم کے سیاسی امور کے خصوصی مشیررانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ 24 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی احتجاج کی کال ’مس کال‘ ہے، حکومت کسی پریشرمیں نہیں آئے گی، یہاں کوئی مارنے کے لیے تیار ہے نہ ہی مرنے کے لیے تیارہے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کا آرمی چیف کے نام پیغام، یہ راستہ نکالنے کے لیے جال بن رہے ہیں، رانا ثنا اللہ
جمعہ کو ایک انٹرویو میں وزیر اعظم پاکستان کے سیاسی امور کے خصوصی مشیر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان نے پوری قوم سے مرنے مارنے کے لیے کہا ہے، یہ روّیہ ان کا آج کا نہیں، بہت پرانا ہے لیکن ان کی اپنی جماعت میں 95 فیصد لوگ مرنے مارنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے باقی 5 فیصد لوگوں کا کام سوشل میڈیا پرگالم گلوج اور لوگوں کو ٹارگٹ کرنا اور ان کے ساتھ بدتمیزی کرنا ہے، سوشل میڈیا پریہ وہ لوگ ہیں جو مرنے مارنے والے نہیں ہیں۔ یہ ایک طرح کی پی ٹی آئی کی ’مس کال‘ ہے، پی ٹی آئی کو ایسا انتشار نہیں پھیلانا چاہیے۔
مزید پڑھیں:9 مئی واقعات پر بانی پی ٹی آئی تسلیم کریں کہ ان سے غلطی ہوئی، رانا ثنا اللہ
رانا ثنا اللہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگرکسی معاملے پرقوم کی کوئی رائے بنتی ہے توحکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس رائے کو ضرور سنے، لیکن ایک انتشاری ٹولہ جو اس ملک میں گزشتہ 10 سال سے فتنہ، فساد اور افراتفری پھیلائے ہوئے ہے، قوم اس کے بارے میں کیا رائے دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آج جیل میں ہونے کا یا اپنے ساتھ دھاندلی کا بہانہ بنا رہے ہیں، جب انہوں نے اپنے دور اقتدار میں دھاندلی کی اور لوگوں کو جیل بھیجا تھا تواس وقت بھی ان کا یہی پروگرام اور’منترا‘ تھا، وہ کارکنوں کو کہتے تھے ماردیں، گالیاں دیں، پیچھے لگ جائیں، توہین کریں۔ یہ ان کی عادت ہے جس سے وہ مجبور ہیں۔
کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کرنے کے حامی نہیں ہیں
ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ نے کہا کہ میں پہلے ہی کیسے مان لوں یا سمجھوں کہ عوام چاہیے گی تو عمران خان کو رہا کر دیں گے، کنٹینرلگا کرسڑکیں بند نہیں ہونی چاہیں، یہ پہلے بھی غلط ہوا، کنٹینر لگا کرروالپنڈی اور اسلام آباد کو بند کر دیا گیا حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی، ان کی کال پر کوئی نکلا ہی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فوج کے خلاف ڈیجیٹل دہشتگردی کے پیچھے فیض حمید کا ہاتھ ہوسکتا ہے، رانا ثنااللہ
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کرنے کے حامی نہیں ہیں تاہم پیشی اقدامات ہونے چاہیں، کیونکہ 9 مئی کے پس منظر کے باعث حفاظتی اقدامات ہونے چاہییں۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اسلام آباد پہنچ کر دھنگا فساد ہی کریں گے، پشاور میں لوگوں کو اسی لیے اکٹھا کیا گیا ہے کہ انہیں احتجاج کے لیے تیار کیا جا سکے لیکن ان میں سے 95 فیصد لوگ واپس آئیں گے اور احتجاج کے حوالے سے کوئی سرگرمی نہیں کریں گے۔
گرفتاریاں بھی ہو سکتی ہیں
انہوں نے کہا کہ جو 5 فیصد پی ٹی آئی کے کارکن کوئی سرگرمی کریں گے، حکومت کو ان کے خلاف پیشگی اقدامات کرنا چاہیں اور کیے بھی جائیں گے، انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے، تاہم اس حوالے سے جو بھی حکومتی حکمت عملی طے ہو گی وہ کابینہ میں زیر بحث آئے گی اوراسی کے مطابق صوبائی حکومتوں کو بھی دی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کارکنان رانا ثنااللہ کو واٹس ایپ پر کیسے پیغامات بھیجتے ہیں؟ اہم انکشاف
اس حوالے سے صوبائی حکومتوں کو جو بھی مدد چاہیے ہو گی وہ وفاقی حکومت ضرور مہیا کرے گی، پیشگی اقدامات سے مراد کے انہیں خبردار کرنے سے لے کر گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔
عمران خان کو دو ٹوک پیغام مل گیا ہے
رانا ثنا اللہ نے انکشاف کیا کہ عمران خان کا جن لوگوں کی جانب اشارہ ہے تو انہوں نے عمران خان کو دو ٹوک بتا دیا ہے کہ اگر 9 مئی کے مقدمات سے چھٹکارا پانا ہے یا کوئی نرمی چاہیے تو صدقِ دل سے قوم سے معافی مانگیں اور اگر اس سلسلے میں کوئی مذاکرات کرنے ہیں تو وہ سیاسی جماعتوں سے بات کریں۔
بانی پی ٹی آئی کے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اب عمران خان کے لیے اس کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں بچا کہ انہیں اگرعقل یا سمجھ آ گئی ہو تووہ اپنی برادری یعنی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر رولزآف گیمزاورمعاملات طےکریں، اس کےسوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: جسٹس منصور علی شاہ کو پی ٹی آئی نے متنازعہ بنایا، رانا ثنا اللہ
انہوں نے کہا کہ جب عمران خان اقتدار میں تھے تو اس وقت بھی گرفتاریاں ہو رہی تھیں،مقدمات بن رہے تھے، ایوان میں کھڑے ہو کر شہباز شریف نے عمران خان کو مذاکرات کی پیش کش کی لیکن وہ نہیں مانے تھے۔ مذاکرات ایسے نہیں ہوتے کہ پہلے آپ شرائط منوائیں اور پھر آگے بڑھیں، شرائط پر کبھی بھی سیاسی مذاکرات آگے نہیں بڑھتے، مینڈیٹ کی واپسی کے لیے ہم بھی صدائیں لگاتے رہے ہیں۔
ڈیڈ لاک ختم کرنا چاہتے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہم یہ ڈیڈ لاک ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کے لیے فارمولا طے کرنے کے لیے مل کر بیٹھنا ضروری ہے۔ پہلے سے ہی شرائط رکھ کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔