اوورسیز پاکستانیوں کی سیاسی سرگرمیاں اور ان کے اثرات

جمعہ 15 نومبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی میں اوورسیز پاکستانیوں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ نہ صرف زرمبادلہ بھیج کر ملک کی مالی حالت کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ اپنے اپنے میزبان ممالک میں پاکستان کے سفیروں کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں کچھ افراد کے غیر ذمہ دارانہ اور شدت پسندانہ رویوں نے نہ صرف ان کی ذاتی ساکھ بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی حیثیت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

ان رویوں سے میزبان ممالک کے قوانین کی خلاف ورزی ہوئی جس کے نتیجے میں ان ممالک کو اپنے امیگریشن اور ورک ویزا قوانین کو سخت کرنا پڑا۔ یہ صورت حال ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ کسی بھی ملک میں کام کرنے یا رہنے والے غیر ملکی باشندوں کو میزبان ملک کے قوانین، سماجی اقدار اور پیشہ ورانہ قواعد وضوابط کا احترام کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: مدینہ منورہ میں تاریخی، ثقافتی تقاریب، قدیم سلطنتوں اور اونٹوں کی نیلامی کے خصوصی فیسٹیولز

یہ احترام نہ صرف ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے لیے ضروری ہے بلکہ ملک کی عالمی ساکھ کے لیے بھی اہم ہے۔ میزبان ممالک کے قوانین اور اوورسیز پاکستانیوں کی ذمہ داری کسی بھی ملک میں رہنے یا کام کرنے والے غیر ملکی باشندے اس ملک کے قوانین اور ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ قوانین معاشرتی نظم و ضبط، سیاسی استحکام اور معیشت کی مضبوطی کو یقینی بنانے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔

میزبان ممالک میں اوورسیز پاکستانیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان قوانین کی پاسداری کریں چاہے وہ ورک ویزا پر ہوں یا مستقل رہائش اختیار کر چکے ہوں۔ بدقسمتی سے گزشتہ واقعات نے ثابت کیا ہے کہ کچھ اوورسیز پاکستانی ان قواعد وضوابط کو نظرانداز کرتے ہوے سیاسی شدت پسندی اور جماعتی عصبیت کو فروغ دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے کچھ حامیوں کی جانب سے باقاعدہ پلاننگ کے تحت سعودی عرب خاص طور پر مدینہ منورہ میں مذہبی مقامات پر سیاسی نعرے بازی کا ایک ایسا واقعہ ہے جو قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور معاشرتی نظم وضبط کی توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ نہ صرف مذہبی مقامات کی حرمت کو پامال کرتا ہے بلکہ میزبان ملک کے سماجی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔

اسی طرح کچھ پاکستانیوں کی طرف سے امارات میں بھی یہی کھیل رچایا گیا، حتیٰ کہ امارات کے جنرل قونصلر بخیت الرمیثی پاکستانی میڈیا میں آئے اور انہوں نے ادو میں موضوع اجاگر کیا۔ گو کہ وہ موضوع امیگریشن کے متعلق تھا لیکن انہوں نے ان رویوں کا اشاروں کنایوں میں اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے امور امیگریشن پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے: شریک روٹی: اہلِ مدینہ کے ثقافتی حسن کا ایک مظہر

وہ اس طرح کہ میزبان ممالک سخت امیگریشن پالیسیزکی طرف جانا شروع کرتے ہیں جس سے یقیناً پاکستانی کمیونٹی کے لیے ویزا کے حصول میں دشواری بڑھ جاتی ہے اور ایسے واقعات میزبان ملک میں موجود دیگرپاکستانیوں کی ملازمتوں اور روزگار کے مواقع متاثر کرتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کوبھی نقصان پہنچتا ہے اور ممالک کے ما بین تعلقات میں دراڑیں بھی پڑتی ہیں۔

اوورسیز پاکستانیوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ جہاں بھی کام کر رہے ہوں وہاں کے قوانین اور پیشہ ورانہ ضوابط کی پابندی ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ میزبان ممالک میں عمومی طور پر ورک ویزا حاصل کرنے والوں کے لیے کچھ اصولوں کی پاسداری لازمی ہوتی ہے، مثلاً قانونی حدود میں رہتے ہوئے ہر ملازم کو اپنے فرائض انجام دینے چاہییں۔ کوئی بھی سیاسی سرگرمی یا اجتماع جو میزبان ملک کے قوانین کے خلاف ہو اس سےاجتناب کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح کام کی جگہ پر یاعوامی مقامات پر کسی بھی قسم کی انتہا پسندی یاغیر ذمہ دارانہ رویے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہر ملازم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے رویے میں پیشہ ورانہ اصولوں کی پیروی کرے۔ نیز میزبان ملک کی ثقافت اور سماجی روایات کا احترام بھی ضروری ہے اور کسی بھی قسم کی سرگرمی جو ان روایات سے متصادم ہو وہ میزبان ملک میں آپ کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

کئی ممالک غیر ملکی باشندوں کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ ان قوانین کا احترام کریں اور اپنے سیاسی نظریات اور سرگرمیوں کو ذاتی دائرے تک محدود رکھیں۔

حکومت پاکستان بھی اس مسئلے سے بخوبی واقف ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی قوانین کی پابندی کریں اور اپنی کمیونٹی کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچائیں۔

اس ضمن میں حکومت میزبان ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مزید مضبوط کرے تاکہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں پاکستانی کمیونٹی کو درپیش چیلنجز کو کم کیا جا سکے۔ نیز اوورسیز پاکستانیوں کو میزبان ممالک کے قوانین اور ضوابط سے آگاہ کرنے کے لیے آگاہی پروگرامز کا انعقاد کیا جائے اوران افراد کی نشاندہی کی جائے جو میزبان ممالک میں قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

مزید پڑھیں: مدینہ منورہ میں شکایات کی شرح کم رہنے پر وزیر مذہبی امور کا اظہارِ اطمینان

اوورسیز پاکستانیوں کو سمجھنا ہوگا کہ وہ جہاں بھی ہوں ان کی پہچان ان کے عمل سے ہوتی ہے۔ وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے بھی ایک آئینہ ہوتےہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ میزبان ممالک کے قوانین کا احترام کریں، پیشہ ورانہ ضوابط کی پاسداری کریں اور سیاسی شدت پسندی سے اجتناب کریں۔ یہی طرز عمل ان کی کامیابی اور پاکستان کی عالمی ساکھ کے استحکام کا ضامن ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک قوم کی ترقی اور عزت اس کے شہریوں کے رویے سے جڑی ہوتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے کردار کوبہتر بنائیں تاکہ دنیا ہمیں ایک ذمہ دار اور قانون پسند قوم کے طور پر پہچانے۔ اس ضمن میں حکومت اورعوام کا مل جل کر کام کرنا ضروری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp