پچھلے چند ماہ مشرق وسطیٰ کی مسلم مزاحمتی تنظیموں کے لیے بہت مشکل اور تکلیف دہ رہے۔ غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے، حماس کی قیادت جس طرح نشانہ بنی، وہ تو سب کے سامنے ہے ہی، مگر جس طرح لبنان میں حزب اللہ پر یکایک قیامت ٹوٹ پڑی، وہ ماہرین کے لیے سب سے زیادہ حیران کن ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور درجن بھر دیگر اہم ترین عسکری و سیاسی رہنما ستمبر کے آخری ہفتے کے دوران اسرائیلی ائیر اسٹرائیکس میں نشانہ بنے، حتیٰ کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں، ان کے جانشین ہاشم صفی الدین بھی نشانہ بن چکے ہیں۔
ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آخر اسرائیل نے ایسا کس طرح کیا؟ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر ناقابل تسخیر نظر آنے والے حزب اللہ کے تنظیمی ڈھانچے کو اتنے شدید نقصانات اٹھانے پڑے؟ ایسا کیا ہوا کہ وہ حسن نصراللہ جو پچھلے 20، 25 برسوں سے اسرائیل کی موسٹ وانٹڈ لسٹ میں ہونے کے باوجود محفوظ تھے، اب نہ صرف وہ بلکہ ان کے تمام قریبی ساتھی اور ممکنہ جانشین بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اس کالم میں ہم انہی وجوہات اور اسباب کا جائزہ لیں گے۔ اس حوالے سے خاصا کچھ مشرق وسطیٰ کے اخبارات اور جرائد میں شائع ہوا ہے، کچھ تفصیلات اسرائیلی میڈیا سے بھی باہر آئی ہیں۔
حزب اللہ کے آہنی حصار کا ٹوٹنا
حزب اللہ کی سب سے بڑی خوبی اور طاقت اس کے بارے میں کم معلومات کی دستیابی تھی۔ شہید حسن نصراللہ نے بڑی مہارت کے ساتھ ایسا تنظیمی ڈھانچہ بنایا جس میں بہت کچھ خفیہ تھا۔ حزب کے اہم کمانڈروں اور لیڈروں کے بارے میں معلومات پبلک نہیں تھیں۔ حسن نصراللہ خود اپنی نقل و حرکت کو خفیہ رکھتے، تنظیم کے دفاتر اور اہم اڈے اس قدر خفیہ ہوتے کہ انتہائی اندرونی سرکل تک یہ معلومات محدود رہتیں۔ اہتمام کیا جاتا کہ ایک سیکشن کے بارے میں دوسرے کو معلوم نہ ہو۔
آپریشن اور عسکری کارروائیوں کے لیے چھوٹے چھوٹے مختلف گروپ اور سیلز بنائے گئے تھے، ایک گروپ دوسرے کے بارے میں بے خبر ہوتا۔ معلومات دانستہ محدود رکھی جاتیں۔ سب سے اہم یہ تھا کہ حزب کے جنگجوؤں کو بھرتی کرنے سے پہلے لمبے چوڑے تفتیشی اور نگرانی کے مراحل سے گزارا جاتا۔ صرف انتہائی قابل اعتماد لوگوں کو ہی شامل کرتے اور پھر برسوں کی نگرانی اور مختلف آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ہی وہ تنظیم میں مرحلہ وار اوپر کی طرف سفر کرتے۔
اسرائیل نے 2006 میں لبنان پر کئی ہفتوں تک خوفناک بمباری اور زمینی حملے کیے، اپنی طرف سے اس نے حزب اللہ کا تنظیمی ڈھانچہ اور ٹھکانے تباہ کرنے کی پوری کوشش کی، مگر ناکام رہا۔
حزب اللہ کے آہنی حصار نے تب اس کی حفاظت کی۔ تاہم پچھلے 12، 14 برسوں میں بہت کچھ بدل گیا۔ وہ آہنی حصار بوجوہ ٹوٹ گیا، حفاظتی دیواریں اس طرح مضبوط اور ناقابل تسخیر نہ رہ سکیں۔ اسی کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
شامی خانہ جنگی میں شمولیت تباہ کن ثابت ہوئی
شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف عرب بہار میں مصر، تیونس، لیبیا، یمن کی طرز کا عوامی احتجاج شروع ہوا۔ 2012 میں یہ مسلح جدوجہد کی صورت اختیار کرگیا۔ درحقیقت شام ایک نیا تھیٹر آف وار بن گیا۔ بشار الاسد کے مخالفین نے مسلح جدوجہد کرنے والے ان گروپوں کی مدد کی تو ایران اور لبنانی حزب اللہ نے بشارالاسد حکومت کی بھرپور انداز میں مدد کی۔ حزب اللہ کے جنگجو بھی اس جدوجہد میں شامل ہوئے اور ان کے کئی اہم کمانڈروں اور لڑاکوں نے شام میں کئی سال تک رہ کر اسد حکومتی دستوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ شام میں حزب اللہ کی شمولیت ان کی تنظیم کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوئی۔ دراصل شام میں تب کئی گوریلا گروپ کام کررہے تھے، ان میں مبیّنہ طور پر اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ بھی سرائیت کرگئے۔ حزب اللہ کے جنگجو جب ان گروپوں کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہوئے تو ان اسرائیلی ایجنٹوں کا رابطہ حزب سے بھی ہوا۔
مشرق وسطیٰ پر نظر رکھنے والے عسکری ماہرین کے مطابق شام میں موجود ان اسرائیلی ایجنٹوں کے ذریعے پہلی بار اسرائیل کو حزب اللہ کے سیٹ اپ میں گھسنے اور اندرونی سیٹ اپ کی جھلک دیکھنے کا موقعہ ملا۔
دوسرا یہ ہوا کہ شامی مسلح خانہ جنگی کئی سال رہی، اس میں نشیب و فراز بھی آتے رہے، بعض اہم شہر جیسے حلب وغیرہ بشار الاسد مخالف جنگجووں کے پاس چلے گئے اور پھر انہیں بشار حکومت نے واپس بھی لیا۔ اس سب میں حزب اللہ کے آپریشن بھی پھیل گئے۔ اموات ہوئیں، نئے لوگوں کو شامل کرنا پڑا اور پہلے جیسا سخت اور کڑا معیار اپنانا ممکن نہ رہا۔
جنگ کے حالات ہنگامی نوعیت کے ہوتے ہیں، اس میں زیادہ احتیاط ممکن بھی نہیں رہتی۔ اندازہ کیا جارہا ہے کہ لبنان سے بھرتی ہونے والے نئے لوگوں میں بعض اسرائیلی ایجنٹ یا پیسوں کی خاطر معلومات فراہم کرنے والے شامل تھے۔
شامی خفیہ اداروں میں موجود کرپٹ اہلکار بھی ایک وجہ بنے، شام کے ابتر حالات کی وجہ سے بہت سے حکومتی اہلکاروں نے اپنے اہل خانہ کو مغربی ممالک میں سیٹل کرانے کی کوشش کی، اس وجہ سے وہ مغربی، خاص کر امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے آلہ کار بن گئے۔
حزب کے لوگوں کو شامی خفیہ اداروں سے مسلسل رابطے میں رہنا پڑتا، یوں خاصی اہم معلومات 2، 3 ذریعوں سے اسرائیلیوں کے پاس پہنچ گئیں۔
اوور ایکسپوژر نے بھی نقصان پہنچایا
ایک اہم فیکٹر سوشل میڈیا کی انسانی زندگیوں میں بڑھتی ہوئی اہمیت نے پیدا کیا۔ پہلے بہت کچھ منظر عام سے پوشیدہ رہتا تھا، اخبارات یا جرائد میں نپی تلی پریس ریلیز بھیج دی جاتی۔ اب ہر چیز سوشل میڈیا پر ڈالنے کا ٹرینڈ پیدا ہوا اور بہت کچھ سٹیزن جرنلزم (عام آدمی کے کھینچے گئے ویڈیو کلپ، ولاگ وغیرہ) کے ذریعے بھی سامنے آجاتا ہے۔
حزب اللہ بھی اس اوور ایکسپوژر کا شکار ہوئی۔ شام کی جنگ کے باعث ان کا بہت سا اندرونی ڈیٹا سامنے آیا۔ حزب اللہ نے اپنے سوشل میڈیا فورمز پر اپنے مقتول کارکنوں اور رہنماؤں کے بارے میں تعزیتی مضامین شائع کیے، جن میں کسی حد تک بائیوگرافیکل تفصیل بھی ہوتی کہ فلاں مجاہد فلاں شہر یا قصبے کا رہائشی تھا، نام، خاندان وغیرہ۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بڑی تعداد میں یہ ڈیٹا اکٹھا کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا شروع کردیا۔ حزب اللہ کے مقتولین کے جنازوں پر بھی کڑی نظر رکھی جانے لگی، کیونکہ ان میں تنظیم کے اعلیٰ قیادت کے لوگ شریک ہوتے اور پھر غائب ہوجاتے۔ گمان ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے ان میں سے بعض کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔
ٹیکنالوجی کی برتری فیصلہ کن ثابت ہوئی
اسرائیلی ٹیکنالوجی، جدید جاسوسی آلات اور ڈیٹا انالیسز سافٹ ویئر بہت اہم ثابت ہوئے۔اسرائیل نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کئی خفیہ یونٹ صرف اسی ضمن میں مختص کردیے تھے اور انہیں اربوں ڈالر کے فنڈز دیے گئے۔
ان یونٹس کے سینکڑوں یا شاید ہزاروں اہلکاروں نے حزب اللہ سے متعلق ہزارہا ویڈیوز، تصاویر، کلپس اکٹھے کرنے شروع کیے۔ لاکھوں، کروڑوں گیگا بائٹ، ٹیرا بائٹ کا ڈیٹا اکٹھا ہوا۔ خصوصی سافٹ ویئرز بنائے گئے جن کی وجہ سے ان کلپس میں سے بہت کچھ اخذ کیا جاتا۔ یہ پتہ چلتا کہ فلاں شخص حزب اللہ کا کارکن یا کمانڈر ہے تو اس کی روزمرہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی۔
بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی ماہرین نے ان لوگوں کے بارے میں ہر قسم کی معلومات جمع کیں، ان کے اور ان کے بیوی بچوں کے موبائل، کار کے میٹر اور ان کی ہر لوکیشن ٹریس کی۔ اس مقصد کے لیے ہیومن انٹیلی جنس سے لے کر ڈرون اور پھر پیگاسس جیسے سافٹ ویئر کی مدد سے ہیک کیے گئے واٹس ایپ اکاوئنٹس وغیرہ کی مدد بھی لی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ حزب کے لوگ کسی ہوٹل یا بلڈنگ میں جاتے تو اسرائیلی سائبر ایکسپرٹس وہاں کے سی سی ٹی وی کیمرے تک ہیک کرکے معلومات اکٹھی کرتے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اسمارٹ ٹی وی کے جدید ریموٹ کنٹرول تک رسائی حاصل کرلی گئی۔ جب ان لوگوں کی روزمرہ سرگرمیوں میں تبدیلی آتی تو نگرانی کرنے والے اسرائیلی اہلکار چوکنا ہوجاتے، انہیں اندازہ ہوجاتا کہ اب یہ کسی آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں، یوں ان آپریشنوں کی تفصیل بھی انہیں ملنے لگی۔ اس پورے عمل میں کئی سال لگے۔ یہ کوئی ایک آدھ مہینے یا سال کی بات نہیں، اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے 10، 12 سال اس تحقیق پر لگائے۔
گھر کو گھر کے چراغ سے آگ لگی
آخری فیصلہ کن وار حزب اللہ کے پورے کمیونکیشن سسٹم تک رسائی اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے کا تھا۔ اندازہ ہے کہ اس حوالے سے حزب کے اندرونی سرکل سے کسی اہم اور بااثر فرد نے اسرائیلیوں کی مدد کی۔
دانستہ یہ تجویز فلوٹ کی گئی کہ چونکہ فون ٹیپ کرنے آسان ہیں، اس لیے پیجر ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے جو اب متروک ہوچکی اور کسی کی ادھر توجہ نہیں جائے گی۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ بلنڈر ہوا کہ پیجر اور واکی ٹاکی سیٹس کے لیے ایسی کمپنی کا انتخاب کیا گیا جو درحقیقت اسرائیل خفیہ ایجنسیوں کی ملکیت تھی اور یہی اصل ٹریپ تھا۔
ہزاروں پیجرز اور واکی ٹاکی لبنان پہنچے، حزب اللہ کے اہم رہنماؤں، کمانڈروں اورجنگجووں میں کئی ماہ تک زیر استعمال رہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی ایجنسیوں کو کس قدر خفیہ معلومات حاصل ہوئی ہوں گی؟ ان میں یقینی طور پر ٹریکر لگے ہوں گے، ریکارڈنگ کی جاتی رہی ہوگی۔
پھر جب حزب پر گہرا نفسیاتی وار کرنا مقصود تھا، تب اچانک ہی یہ سب پیجرز اور واکی ٹاکی دھماکے سے اڑا دیے گئے۔ اس سے کئی اموات بھی ہوئیں، مگر اس سے زیادہ حزب اللہ کو جو گہرا دھچکا لگا وہ یہ کہ تنظیم کا مورال ڈاؤن ہوا اور ان کی صفوں میں بے چینی اور شکوک پیدا ہوگئے۔
کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون قابل اعتماد ہے اور کون نہیں؟ اسی گھبرائٹ اور پریشانی میں حزب اللہ کی قیادت سے بھی غلطیاں ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایرانی اعلیٰ قیادت نے حسن نصراللہ کو پیغام بھیجا کہ ان کے گرد خطرات منڈلا رہے ہیں، وہ لبنان چھوڑ کر شام آجائیں، جہاں سے وہ ایران پہنچ سکتے تھے۔ حسن نصراللہ نے شاید اسی شدید کنفیوژن کے باعث ایسا کرنے سے گریز کیا، اور شاید وہ اپنا وطن بھی نہیں چھوڑنا چاہتے ہوں گے۔
حزب اللہ نے اسرائیل کے فضائی حملوں سے بچنے کے لیے زمین سے نیچے کئی منزلہ تہہ خانے بنائے تھے، ایسے بنکر جنہیں بم تباہ نہ کرسکیں۔ ماضی میں یہ حربہ کام کرگیا، مگر اب کی بار اسرائیل نے خاص طور سے اسی مقصد کے لیے بکتر شکن بم بنائے جو زمین میں بہت نیچے تک جاکر ہر چیز تباہ کردیں۔ حسن نصراللہ پر حملے میں یہی بنکر شکن بم ہی استعمال ہوئے۔؎
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے حزب اللہ کو شدید اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، تاہم گوریلا تنظیموں خاص کر نظریاتی ذہن رکھنے والے جنگجو گروہوں کو یوں مکمل ختم کرنا ممکن نہیں۔ حزب اللہ کا وجود بھی برقرار ہے اور ان میں جذبے کی بھی کمی نہیں۔ البتہ حزب کو پہلے جیسی عسکری قوت حاصل کرنے میں وقت لگ جائے گا۔
اس موضوع پر بہت سی رپورٹس اور آرٹیکلز پڑھتے ہوئے مجھے یہی خیال آرہا تھا کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے کمال مہارت اور سمجھداری سے نہ صرف اپنے ڈھانچے کو ایسی بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھا بلکہ عالمی قوت سے برسوں کی ڈیلنگ اور ان کے شدید دباؤ کو بھی بہت اچھے سے برداشت اور ہینڈل کیا۔
پاکستان نے آس پاس تھیٹر آف وار ایکٹو ہونے اور غیر ملکی ایجنسیوں کی بے پناہ موجودگی کے باوجود اپنے نیوکلیئر اثاثوں، اپنے میزائل سسٹم، اپنے خفیہ اداروں اور ان کے اثاثوں کی بھرپور طریقے سے حفاظت کی ہے۔ جو غلطیاں ایرانی خفیہ اداروں سے ہوئیں یا جو بلنڈر حزب اللہ نے کیے، پاکستانی منصوبہ ساز ان سے دور رہے۔
پاکستانی خفیہ اداروں کا یہ شاندار طرزعمل یقینی طورپر اس قابل ہے کہ دیگر مسلم ممالک کے عسکری اور خفیہ ادارے اس سے سیکھیں اور اپنے آپ کو دشمنوں کے مقابلے کے لائق بنائیں۔