جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے 24 نومبر کو احتجاج کی کال مناسب نہیں، کیونکہ مسلسل احتجاج کی کالز کے باعث احتجاج کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف میں مؤثر حکمت عملی بنانے والے لوگ موجود نہیں۔ میرے ساتھ کبھی انہوں نے اس حوالے سے مشاورت نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں کیا مولانا فضل الرحمان عمران خان کی رہائی کے لیے کوششیں کررہے ہیں؟
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہماری تلخیاں تھیں جو کم ہورہی ہیں، اب ہم اپوزیشن کے ساتھ بھی اپوزیشن تو نہیں کرسکتے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ 26ویں آئینی ترمیم کے وقت جو ڈرافٹ لایا گیا وہ کالا ناگ تھا، جس کے ذریعے آئین و قانون معطل ہوجاتا، تاہم ہم نے بعد میں تمام متنازعہ شقوں کو اس سے نکال دیا۔
انہوں نے کہاکہ آئینی ترمیم کے وقت مجھ پر ایک ماہ تک بہت پریشر رہا، تاہم ہم نے بات چیت کے ذریعے ہی تمام مسائل کا حل نکالا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہاکہ مدارس کے حوالے سے جو بل دونوں ایوانوں سے پاس ہوا اس پر ابھی تک صدر مملکت نے دستخط نہیں کیے، اس حوالے سے میں نے وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو سے بھی بات کی ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں دہشتگردی سمیت دیگر معاملات پر افغانستان سے بامعنی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، میں نے جب افغانستان کا دورہ کیا تو تمام چیزوں پر اتفاق ہوا تھا لیکن بعد میں پھر معلوم نہیں کہ کس کی نظر لگ گئی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ نائن الیون کے بعد امریکا جب افغانستان میں اترا تو ہم نے اسے اڈے فراہم کیے، اس وقت پرویز مشرف واشنگٹن کی نظروں میں مقبول ہونے کے لیے کسی کی بات نہیں سنتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ امریکا جب افغانستان سے نکلا تو دنیا کو ایک تاثر ملا کہ مسلح لوگوں کی جیت ہوئی اور امریکا ہار گیا۔
یہ بھی پڑھیں سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے جمہوریت پر سمجھوتہ کیا، مولانا فضل الرحمان
مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ عام انتخابات میں ہمارے ساتھ بدترین دھاندلی کی گئی، اور ہماری سیٹوں کو گزشتہ دور سے بھی کم کیا گیا لیکن حکومت کو آئینی ترمیم کے وقت پھر ہمارے پاس آنا پڑا کیوں کہ ان کے پاس اکثریت نہیں تھی۔