خیبر پختونخوا کے سرکاری اسکولوں کی حالت زار پر از خود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے کی، عدالتی استفسار پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل خیبرپختونخوا نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اب تک463 اسکول فعال ہو چکے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل کے مطابق مانسہرہ، ایبٹ آباد اور طورخم میں 60 اسکول مکمل ہیں اسی طرح 30 سے 40 اسکول 75 فیصد مکمل ہیں، فنڈز کی کمی کی وجہ سے بعض اسکولوں کے منصوبے مکمل نہیں ہوسکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں مقدمات کی ناقص تفتیش پر سپریم کورٹ کا شدید اظہارِ برہمی
جسٹس جمال خان مندوخیل نے شکایت کی کہ صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ کارکردگی رپورٹ میں جو تصویریں منسلک کی گئی ہیں ان میں طالبعلم بچے تو دکھائی نہیں دے رہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پھر ایسا کریں کہ یہاں بھینسیں باندھ دیں، ہم سیکریٹری تعلیم کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیتے ہیں وہ آ کر بتا دیں گے کتنے اسکول اب تک مکمل ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: لاپتا افراد کیس: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے
جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ فنڈز کون دیتا ہے کیوں نہیں دے رہا، پورے پاکستان کا یہی مسئلہ ہے ، منصوبے شروع کر دیتے ہیں، 2 سال کا وقت ہوتا ہے جس میں 10 سال لگ جاتے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے عدالت سے کیس نمٹانے کی استدعا کی تو جسٹس محمد علی مظہر بولے؛ مفت تعلیم کی فراہمی آئینی تقاضا ہے، مطمئن ہوئے بغیر کیس نہیں نمٹا سکتے، اسکولوں کی عمارت کے ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں بچوں کا زیر تعلیم ہونا بھی ضروری ہے۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ: مردان میں درختوں کی کٹائی کے معاملے پر صوبائی حکومت سے جواب طلب
عدالت نے صوبائی سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری ورکس اینڈ ڈیپارٹمنٹ اور سیکریٹری تعلیم کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ماہ تک کے لیے ملتوی کردی ہے۔