بشریٰ بی بی نے عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے بیان کیوں دیا؟

ہفتہ 23 نومبر 2024
author image

عامر خاکوانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

  یہ عمران خان کی گرفتاری سے چند ماہ پہلے کی بات تھی، ابھی نو مئی نہیں ہوا تھا۔ زمان پارک لاہور میں عمران خان کی صحافیوں، کالم نگاروں سے ملاقاتیں چل رہی تھیں۔ ایک ملاقات میں خاکسار بھی شریک تھا۔ آٹھ نو صحافی شامل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ مظہر برلاس اس ملاقات کے لیے اسلام آباد سے لاہور آئے تھے۔منصور آفاق کچھ دن قبل ہی وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے حکم پر مجلس ترقی ادب سے فارغ کئے گئے تھے۔ وہ دوران ملاقات یہ کتھا سنانے کی کوشش کرتے رہے۔سلمان عابد، اعجاز حفیظ خان وغیرہ بھی شامل تھے۔

  عمران خان سے مختلف سوالات ہوئے۔ اپنی باری پر میں نے دو سوالات کئے، پہلے کا تعلق تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی سے ہے، اسے سردست رہنے دیتے ہیں، اگرچہ آٹھ فروری کے انتخابی نتائج نے میرے اس سوال نما اعتراض کو درست ثابت کر دیا۔

دوسرا سوال یہ تھا،’آپ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک آپ کے رویہ اور طرزعمل سے شاکی اور ناراض ہوئے، خاص کر سعودی عرب، اس میں کس قدر صداقت ہے؟‘

  عمران خان کا چہر ہ یہ سن کر تمتما اٹھا، ان کی آنکھوں میں تیز چمک ابھری اور پھر وہ اگلے کئی منٹ تک اسی سوال کا جواب دیتے رہے۔خان صاحب کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں، یہ سب پروپیگنڈا ہے۔ کہنے لگے کہ صرف ایک مختصر عرصہ تھا جب ملائشیا اور ترکی کے ساتھ اسلامی ممالک کی کانفرنس کے حوالے سے سعودی عرب کو شکایت پیدا ہوئی، مگر وہ فوری ہم نے رفع کرا لی۔ اس کے بعد سعودی حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان کے میرے ساتھ بہت خوشگوار تعلقات رہے۔

   عمران خان نے پھر ایک مضبوط دلیل بھی پیش کی، کہنے لگے کہ میری حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے چند دن قبل اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرا خارجہ کا اجلاس ہوا تھا، کیا سعودی حکومت کی حمایت اور آشیرباد کے بغیر یہ ممکن تھا؟ اگر سعودی حکمران مجھ سے ناراض ہوتے تو یہ اجلاس کبھی نہ ہوپاتا۔ عمران خان کا یہ پوائنٹ میں نے چند دن بعد ایک صحافی دوست کو بیان کیا، جن کا ن لیگ کے بارے میں نرم گوشہ ہے۔ وہ یہ بات سن کر سٹپٹا گئے، کہنے لگے کہ دلیل توخان نے تگڑی دی ہے، جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

   اس بات کو دو سال گزر گئے، بہت کچھ الٹ پلٹ ہوگیا۔ گزشتہ شام خبروں میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان کو سن کر مجھے عمران خان کی وہ بات یاد آئی۔ بشریٰ بی بی نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ جب عمران خان بطور وزیراعظم پہلی بار مدینہ منورہ گئے اور وہاں پر وہ جہاز سے اتر کر ننگے پاؤں پھرتے رہے تو اس کا برا منایا گیا اور واپسی پرمیزبانوں نے جنرل باجوہ کو فون کر کے شکایت کی کہ آپ کسے لے آئے ہیں؟

بشریٰ بی بی نے اس حوالے سے چند ایک مزید جملے کہے جس کا مفہوم یہی تھا کہ ایسا پابند شریعت، بنیاد پرست رہنما ہمیں وارے نہیں کھاتا، وغیرہ وغیرہ۔ اس ویڈیو میں سب سے خوفناک دعویٰ یہ ہے کہ اس دورے کے بعد عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف”گند“ پڑنا شروع ہوگیا، بشریٰ بی بی پر سخت تنقید ہوئی جبکہ عمران خان کو بھی یہودی ایجنٹ کہا گیا، وغیرہ وغیرہ۔

   بشریٰ بی بی کے اس دعوے کی ایک تردید تو علامہ طاہر اشرفی نے کی جو اس دورے میں عمران خان کے ساتھ تھے۔ خان صاحب نے انہیں مشرق وسطیٰ امور کا مشیر بلحاظ عہدہ وزیر مقرر کر رکھا تھا۔ طاہر اشرفی کے بقول یہ سب جھوٹ اور بے بنیاد ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور تحریک انصاف اس طرح کی الزام تراشی اس لیے کر رہی ہے کہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی سعودی انویسٹمنٹ ہونے جا رہی ہے۔

دوسری تردید جنرل باجوہ نے ذرائع کے نام سے کی۔ انصار عباسی صاحب نے یہ خبر دی ہے کہ جنرل باجوہ نے کہا ہے کہ یہ جھوٹ ہے، ایسی کوئی کالز نہیں آئیں اور یہ بات میں خانہ کعبہ میں جا کر حلفیہ کہنے کو بھی تیار ہوں۔

   اس خاکسار کی آدھی سے زیادہ عمر صحافت میں گزر گئی۔ میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ مزید تحقیق کی ضرورت ہی نہیں۔ تحریک انصاف اس بیان سے فوری فاصلہ کر لے گی، اسے بشریٰ بی بی کی ذاتی رائے قرار دیا جائے گا۔ اگر عمران خان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے تو ان کی جانب سے بھی فوری وضاحت آ جائے گی۔ البتہ جو شدید ڈیمیج، ڈینٹ اور نقصان تحریک انصاف کو بشریٰ بی بی کے اس بیان سے پہنچا ہے، اس کی تلافی یا بھرپائی اتنا جلد نہیں ہوسکے گی۔

نرم سے نرم الفاظ میں بشریٰ بی بی کے اس بیان کو نہایت غیر ذمہ دارانہ، بچگانہ اور بلاوجہ  قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کے اس ویڈیو بیان کا تحریک انصاف کو ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوگا، مگر اس کے نقصانات شدید، سہہ جہتی اور دور رس ہیں۔ عمران خان بھی اب چاہیں تو لفظوں کے جو تیر چل گئے ہیں، انہیں واپس نہیں لا سکتے۔

  بشریٰ بی بی کی باتیں منطقی طور پر بھی درست نہیں۔ یہودی ایجنٹ کی اصطلاح سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مولانا فضل الرحمان استعمال کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں بھی جلسوں میں یہ بات بار بار کہی، بلکہ وہ اس سے پہلے بھی یہ کہتے آئے ہیں، تب تو عمران خان کی بشریٰ بی بی سے شادی تک نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے یہ کہنا کہ اس سعودی دورے کے بعد عمران خان کو ایسا کہا جانے لگا، یہ واقعاتی طور پر غلط ہے۔

یہ بھی غلط ہے کہ اس دورے کے بعد بشریٰ بی بی پر تنقید شروع ہوئی۔ اپوزیشن تو پہلے دن سے عمران خان پر تنقید کر رہی تھی۔ بشریٰ بی بی پر تنقید تب بڑھی جب یہ خبریں آنے لگیں کہ وہ فرح گوگی کے ذریعے پنجاب کی بزدار حکومت پر اثرانداز ہوتی ہیں اور یہ کہ عمران خان پر اپنی بیگم کا خاصا اثر ہے۔ فطری طور پر تب اپوزیشن کی تنقید میں عمران خان کے ساتھ، ان کی اہلیہ کو بھی ہدف بنایا جانے لگا۔

  آگے بڑھنے سے پہلے یہ سوال بھی پوچھ لینا چاہیے کہ مدینہ منورہ میں ننگے پاؤں پھرنے کا شریعت سے کیا تعلق؟ اسلامی تاریخ عظیم الشان کردار رکھنے والے آئمہ،محدثین، حفاظ، اولیا کرام اور مختلف سطحوں کے علما کے تذکرے سے معمور ہے۔ صرف ایک آدھ ہی ایسی مثال ہوگی جس میں کسی نے پاپوش اتار کر مدینہ شریف میں چلنے کی کوشش کی، مولانا جامی ہی کا نام لیا جاتا ہے۔

   جہاں تک عشق رسول ﷺکا تعلق ہے، زمین پر انسانوں کی سب سے زیادہ برگزیدہ اور فضیلت والی جماعت صحابہ کرام کی تھی۔ اصحاب کرام ؓ کے حوالے سے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کون ہے جو سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی حیدر کرار، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح، حضرت ابوذر غفاری وغیرہ سے بڑھ کر عاشق رسول ﷺ ہوگا؟ آئمہ اہل بیت ہی کو لے لیجیے۔ حضرت حسنین کریمین جناب امام حسن، جناب امام حسین اور پھر امام زین العابدین سے بعد میں آنے والے آئمہ تک، کون ہے جو عشق ر سول ﷺیا آداب عشق سے ناواقف ہو؟ ان میں سے کون اپنے جوتے اتار کر مدینہ میں چلتا تھا؟

  آئمہ فقہ میں سے جناب امام مالک بن انس تو مدینہ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ کبھی شہر چھوڑ کر کہیں جانے کو تیار نہ ہوتے کہ کہیں وہاں پر موت نہ آجائے۔ مسجد نبوی ﷺ میں بیٹھ کر وہ درس حدیث دیا کرتے۔ کیا انہوں نے کبھی ایسا کیا؟ تابعین، تبع تابعین اور پھر بعد میں آنے والوں میں کیسے کیسے جلیل القدر بزرگ گزرے، کسی نے ایسا کیا؟ نہیں، بالکل نہیں۔ اس لیے کہ ادب اس کا نام ہی نہیں۔ یہ تو ایک ہلکی اور سطحی سی حرکت ہے، جس پر دکھاوے کا شائبہ ہو۔ آج کل تو یہ ویسے بھی غیر ضروری ہوگیا کہ رسول اکرم  ﷺ کے زمانے کا مدینہ شہر تو اب مسجد نبوی کی بے پناہ توسیع کے باعث اسی میں سما چکا ہے۔ آج کا مدینہ تو اس زمانے میں شہر کا مضافات ہی ہوگا۔

   چلیں ہم یہ رعایت دے سکتے ہیں کہ یوں ننگے پاؤں چلنا کسی کی انفرادی سوچ یا طرز عمل ہوسکتا ہے، مگر عمران خان ایک عام فرد نہیں بلکہ وہ پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر گئے تھے۔ وہ پاکستان جس کے درجنوں حکمران اور کئی ملین پاکستانی سعودی عرب اور مکہ، مدینہ کے شہروں میں جا چکے ہیں اور کسی نے جوتے اتار کر ننگے پاؤں چلنے کی کوشش نہیں کی۔ یعنی یہ ہماری مقامی عقیدت یا رسم بھی نہیں تھی۔ یہ تو صرف خان صاحب نے اپنے اہلیہ محترمہ کے مشورے پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی تھی۔ جو ظاہر ہے بظاہر غیر فطری اور غیر منطقی حرکت ہی تھی۔ دیکھنے والوں کو عجیب ہی لگنا تھا۔ خود سوچیں کہ پاکستان کے دورے پر کوئی غیر ملکی سربراہ آئے اور جہاز سے اتر کر ننگے پاؤں چلنے لگے تو ہم لوگ بھونچکے ہی رہ جائیں گے کہ اس غریب کو کیا ہوگیا؟ عمران خان کے تب دورہ سعودی عرب کے حوالے سے کسی سازشی تھیوری کو گھڑنا اور اب یوں اچانک بغیر کسی وجہ کے بیان کرنا تو خاصی بے وقوفانہ سی حرکت ہے۔

   مجھے صرف دو سال قبل لاہور کی وہ خنک شام یاد آئی جب زمان پارک میں عمران خان اپنے تمتماتے چہرے اور غصہ بھری آنکھوں کے ساتھ زور و شور سے دلائل دے کر ثابت کر رہے تھے کہ سعودی عرب کے حکمران ان کے قطعی طور پر خلاف نہیں تھے اور ان کے سعودی شاہی خاندان کے ساتھ خوشگوار مراسم تھے۔ عمران خان زور دے کر کہہ رہے تھے کہ یہ سب پروپیگنڈا ان کے مخالف ن لیگی کرا رہے ہیں، جو بے بنیاد ہے، جس میں کوئی حقیقت نہیں، وغیرہ وغیرہ۔

  میں سوچ رہا تھا کہ اڈیالہ جیل میں موجود عمران خان تک اپنی اہلیہ محترمہ کے اس ویڈیو بیان کو خبر پہنچی ہوگی تو ان پر کیا گزری ہوگی؟ کیا عمران خان نے نہیں سوچا ہوگا کہ مجھے ہمیشہ میرے اپنوں نے ہی مارا اور نقصان پہنچایا ہے۔ ان دوستوں نے بیڑا غرق کیا، جن پر سب سے زیادہ بھروسہ کیا۔ان کے بظاہر مخلص اور پرجوش کارکنوں نے ریڈلائن کراس کر کے سیاسی طور پر تباہ کر دیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے باہمی جھگڑوں سے تنگ آ کر اپنی بیگم کو اختیار دیا اور اپنے احکامات ان کی زبانی کارکنوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سونپی تو اسی اہلیہ نے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر کمر توڑ ڈالی۔

   اڈیالہ جیل میں اسیر قیدی نمبر آٹھ سو چار کے بارے میں کئی گیت لکھے گئے، ایک گیت اس کے نادان دوستوں کے حوالوں سے بھی لکھنا چاہیے، جنہوں نے اپنے لیڈر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔

  چوتھی صدی ہجری کے ممتاز عرب شاعر متنبی کا ایک شعر کبھی پڑھا تھا، اس کا اردو مفہوم ہے :

   مجھے زمانے نے اس قدر تیر مارے ہیں کہ میرا دل تیر لگنے سے چھلنی ہوچکا

   اب حالت یہ کہ جب تیر لگتے ہیں تو گویا تیر تیروں پر لگ کر ٹوٹ جاتا ہے

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp