ڈنکی لگانے کی بھاری قیمت

پیر 18 نومبر 2024
author image

نازیہ سالارزئی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

“میں سال 2016 کو کھبی بھی نہیں بھول سکتی جب میرے چھوٹے بھائی نے اپنا بیگ ہاتھ میں پکڑے، بھیگی آنکھوں اور بوجھل دل کے ساتھ ہم گھر والوں سے رخصت لی اور براستہ ایران فرانس کے لیے روانہ ہوئے۔”

یہ کہنا تھا باجوڑ سے تعلق رکھنے والی حرا کا جو 8 سال سے اپنے بھائی کا چہرہ دیکھنے کے لیے ترس رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ‘میرے بھائی کا ماننا تھا کہ جب تک وہ باہر چلا نہیں جاتا، تب تک ہمارے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ وہاں جا کر وہ کتنی اذیت سے گزرے گا۔’

حرا کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے جانے پر بالکل بھی راضی نہیں تھیں، ‘مگر آج کل کی اولاد کب ماں باپ کا کہنا مانتی ہے۔ 8 سال ہو گئے ہیں، میں جب بھی اپنے بیٹے کا پوچھتی ہوں سب یہی بولتے ہیں کہ ٹھیک ہے، مگر میں تو ایک ماں ہوں، سب سمجھتی ہوں۔’

حرا نے بتایا کہ میرے بھائی نے ایران سے ترکی جاتے وقت بہت مشکل جھیلی تھی کیونکہ ایجنٹ نے جس گاڑی کا بندوبست کیا تھا اس میں صرف پانچ بندے بیٹھ سکتے تھے مگر ایجنٹ نے اس میں 20 بندے گھسائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے میرے بھائی کو سانس لینا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ میرا بھائی پہلے ایران سے ترکی، پھر ترکی سے بلغاریہ اور بلغاریہ سے بوسنیا اور درمیان میں کچھ اور ممالک سے گزر کر پھر فرانس۔ اس

حرا کے مطابق ان کے بھائی 15 بار بلغاریہ سے ترکی واپس ہوئے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ سب سے زیادہ مشکل ان کو بلغاریہ سے فرانس جاتے وقت پیش آئی تھی، اس دوران انہوں نے 8 ٓٹھ دن مسلسل پیدل سفر کیا تھا جس کی وجہ سے ان کے پاؤں بھی سوجھ گئے تھے۔

حرا  اس بات پر دکھی تھیں کہ ان کے بھائی کو چھوٹی عمر سے تکالیف اٹھانا پڑی تھیں، فرانس کے سفر کی صعوبتوں کے علاوہ راستے میں لوگوں کے دیے دھوکے بھی اٹھائے۔ انہوں نے کھلے آسمان تلے راتیں گزاری، ترکی میں بے گار بھرا، اور بھوکا پیاسا ہونے کے باوجود کسی سے شکایت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ وہاں پر غیر قانونی طور پر مقیم تھا۔

حرا نے بتایا کہ ‘بھائی کو ہمارے والد پاکستان سے پیسے بھجواتے تھے۔ میں یہ سب اپنی ماں کو نہیں بتاتی تھی، سب کچھ اپنے دل میں رکھتی تھی جس کی وجہ سے مجھے رات کو نیند بھی نہیں آتی تھی۔’

ایک سوال کے جواب میں حرا نے بتایا کہ ان کے بھائی فرانس پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ سے گھر والوں نے تھوڑا سکھ کا سانس لیا ہے مگر ہم سب کو اس دن کا انتظار ہے  جب ہم اپنے بھائی کا چہرہ دیکھیں گے۔ میری والدہ کو ڈپریشن ہو گئی ہے، مجھے یقین ہے کہ میری والدہ جب اپنے بیٹے کو دیکھ لے گی تو وہ ٹھیک ہو جائے گی۔

نوجوانوں کے حوالے سے ایک لیگل کنسلٹنٹ نے بتایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں غربت ہے، مہنگائی ہے، نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع نہیں ہیں، تو ایسے میں یہ نوجوان انسانی اسمگلرز اور ایجنٹس کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ جب کسی ایک نوجوان کا بیرون ملک جانے کے لیے ایجنٹ سے رابطہ قائم ہوجاتا ہے تو وہ علاقے کے دیگر نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتا ہے۔ ایک تو ان پر یورپ کا بھوت سوا ہوتا ہے اوپر سے ایجنٹوں کی چکنی چپڑی باتیں ان نوجوانوں کو کوئی بھی قیمت ادا کرنے پر تیار کر دیتی ہیں۔ ان ایجنٹس کا وسیع اور مضبوط نیٹ ورک ہوتا ہے۔ کوئٹہ سے ایران تک ان کے اپنے آدمی ہوتے ہیں جو ان نوجوانوں کو سرحد پار کرا کر اپنے دوسرے ساتھیوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان کا یہ نیٹ ورک کا ترکی، دبئی، مصر، لیبیا، اٹلی، فرانس اور کئی اور ممالک تک پھیلا ہوتا ہے۔ ایجنٹ نے بتایا کہ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ حکومت اور غیر سرکاری ادارے اس جال کو توڑنے میں بے بس اور کمزور ہیں۔

ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین زاہد سلطان نے بتایا ملک میں بے روزگاری اور غربت اتنی زیادہ ہے کہ نوجوان شارٹ کٹ مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان تو اپنے گھر میں بتائے بغیر ہی غیر قانونی طور پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اور یا اپنے والدین کو اتنا مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان کو ہاں کر دیتے ہیں مگر یہ نوجوان جاتے وقت گھر کی خواتین کا زیور بھیچ کر اور یا کسی سے قرضہ لے کر روانہ  ہو جاتے ہیں۔ اپنی منزل تک پہنچتے  پہنچتے یہ نوجوان بھوکے پیاسے پیٹ کئی دن مسلسل پیدل چل کر پہنچ تو جاتے ہیں مگر غیر قانونی ہونے کی وجہ سے ان کو وہاں کام کرنے کے وہ پیسے نہیں ملتے جو ملنے چاہییں۔ لوگ ان کے  غیر قانونی ہونے کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان سے بہت ہی کم اجرت میں جی بھر کر کام لیتے ہیں۔

ان کے خیال میں حکومت کو غیر قانونی مائیگریشن کے خلاف آگاہی فراہم کرنی چاہیے۔ لوگوں کو باور کرایا جائے کہ پیسہ ضروری ہے لیکن اتنا بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کے بدلے انسان اپنی جان اور اپنے خاندان کی حفاظت داؤ پر لگا لے۔ حکومت کو نوجوانوں کے لیے اپنے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا  کرنے چاہییں، ان کو مختلف سکلز سکھانی چاہییں، تاکہ وہ لیگل طریقے سے بیرون ملک جا کر عزت سے روزگار کمانے کے قابل ہو سکیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

صوبہ سندھ کے ضلع مٹیاری میں آج عام تعطیل کا اعلان

اسکولوں میں بچوں کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد

ٹریک کم، ٹرینیں آدھی، زمینوں پر قبضے، آئینی عدالت میں ریلوے کارکردگی پر کڑی تنقید

آئین کی تشریح شفافیت، آزادی اور دیانت کے ساتھ کی جائے گی، چیف جسٹس آئینی عدالت امین الدین

’طلحہ انجم نے بھارتی جھنڈا لہرا کر بہت اچھا کیا‘، فرحان سعید کی حمایت پر عوام کا شدید ردِعمل

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟