شکیبؔ اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
شکیب کی اس بات سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں کہ ہر بڑا تخلیق کار اور فنکاراپنا الگ راستہ بناتا ہے۔ بنے بنائے راستے پرچلنے والا کوئی منفرد اورگہرا تاثر پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ شکیب نے واقعی شعر کی دنیا میں اپنا ایک الگ راستہ اور اسلوب دریافت کیا۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، لیکن یار لوگ جب اس کی خودکشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں توبات غلط سمت چل پڑتی ہے۔
ہم لوگ نجانے کیوں سچ کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم نے اپنی پسندیدہ شخصیات کے گرد ایک ہالہ بنایا ہوتا ہے اور اپنے اس دائرے سے باہر اور مختلف حقائق اور دلائل کو رد کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ شکیب جلالی ایک بہت اہم اور بڑے شاعر تھے اور خودکشی کا حوالہ ان کے نام اور شخصیت کے ساتھ ایسا جڑا ہوا ہے کہ ان کا نام آئے تو اس کا ذکر چھڑ جاتا ہے۔ ہم اس پر آہیں تو بھرتے ہیں لیکن پس پردہ وجوہات پر بات کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ ایک دومواقع پر جب راقم نے ان کا خاندانی پس منظر، شکیب کی زندگی میں پیش آنے والے خوفناک واقعات اور ان کی ذہنی حالت اور ایک بیماری کا اشارہ کیا تو دوستوں کو ناگوار گزرا۔ ان کا رویہ کچھ اس قسم کا تھا کہ چھوڑو یاردنیا کوئی رہنے کے قابل جگہ تھوڑی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن مجھے مجید امجد کا رویہ زیادہ پسند ہے جو انتہائی مشکل زندگی گزارنے کے باوجود اپنی پرانی سائیکل کے ساتھ ساہیوال کی سڑکوں پر زندگی کرتے رہے، وہ منٹو پر لکھی گئی شاہکار نظم میں کہتے ہیں، ’جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے، دنیا تیرا حسن یہی بدصورتی ہے، دنیا اس کو گھورتی ہے‘۔ تو دنیا کو پاپوش پر بھی رکھا جا سکتا ہے، اسے کم اہم سمجھا جا سکتا ہے لیکن اپنے ہاتھوں اپنی زندگی چھیننا اس کا حل نہیں۔ خدا جانے شکیب نے ابھی کیا کیا شعر تخلیق کرنا تھا جس سے اردو غزل محروم رہ گئی۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ نوجوان شاعروں میں خود کشی کا رجحان اب بھی موجود ہے اور نئی صدی میں بھی ایسے کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ یار لوگ شکیب اور دیگر شاعروں کی زندگی کا پس منظر جانے بغیر خود کشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تو یہ بات نوجوان ذہنوں کو متاثر کرتی ہے، یہی ثروت حسین کے حوالے سے بھی ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک بیماری ہے اور پوری دنیا میں اسے بیماری مانا جاتا اور اس کا باقاعدہ علاج کیا جاتا ہے۔ اس علاج سے دنیا میں لاکھوں لوگ اس خوفناک خیال سے نجات پا چکے ہیں اور پا رہے ہیں۔ اس بیماری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن کی نشاندہی کر کے اور ان تصوارت سے چھٹکارا پا کر دماغ کو پر سکون کیا جا سکتا ہے۔ شکیب کی مشکلات اور ان کی ذہنی حالت کو سمجھنے کے لیے مختصر الفاظ میں شکیب کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اس موضوع پر ڈاکٹر صفیہ عباد نے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا تھا جو ’راگ رت، خواہش مرگ اور تنہا پھول‘ کے نام سے شائع بھی ہوا۔ انھوں نے اپنے مقالے میں لکھا کہ ’جب شکیب کی عمر تقریباً نو، دس برس تھی تو ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والد سید صغیر حسین نے ان کی والدہ کو ٹرین کے سامنے دھکا دے دیا، اس حادثے میں شکیب کی والدہ کی موت واقع ہو گئی۔ یہ حادثہ بریلی ریلوے سٹیشن پر پیش آیا۔ شکیب کے والد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ محکمہ پولیس میں ملازم تھے، وہاں سے کسی معاملے میں معطل ہوئے تو انھوں نے وظائف شروع کر دیے اور چلے کاٹے جس سے ان کا دماغی توازن بگڑنے لگا۔ وہ کچھ عرصہ پاگل خانے میں بھی داخل رہے لیکن صورتحال میں خاطر خواہ تبدیلی نہ آئی۔ وہ کچھ روحانی تجربے کرتے تھے اور پیری مریدی کے قائل تھے۔ کچھ لوگ انھیں پاگل یا دیوانہ کہتے تھے اور کچھ انھیں پہنچا ہوا بزرگ گردانتے تھے۔ ان کی ذہنی حالت کو کچھ بھی کہا جائے یہ بات طے ہے کہ وہ ایک نارمل انسان نہیں تھے اور ان کی اسی کیفیت نے ایک روز ان کی بیوی کی جان لے لی۔’
شکیب کی زندگی کی باقی کہانی بھی کم پریشان کن نہیں۔ سنہ 1950 میں شکیب جلالی اپنی چار بہنوں کے ساتھ پاکستان آ گئے جہاں ملازمتوں کے سلسلے میں وہ مختلف شہروں میں مقیم رہے۔ادھر شکیب کے والد اگلے 15 برس تک ایک پاگل خانے میں زیر علاج رہے۔ وہ 1965 میں شفایاب ہوئے، شکیب کو ان کی رہائی کی اطلاع ملی تو انھوں نے ان سے ملنے کے لیے انڈیا جانا چاہا مگر جنگ کا زمانہ تھا، شکیب انڈیا نہ جا سکے اور فروری 1966 میں ان کے والد دنیا سے رخصت ہو گئے۔
اب سوچیے کہ ایک نو سال کے بچے کوجب ماں کے قتل کا سانحہ برداشت کرنا پڑا ہو گا اور وہ بھی اپنے باپ کے ہاتھوں،تو اس کی ذہنی کیفیت اور حالت کیا ہوگی اور اس کے بعد پیش آنے والی مشکلات نے اس کے دل و دماغ کو کس قدر مجروح کیا ہو گا۔ وہ کس خوف اور دہشت کے ماحول میں زندگی گزارتا رہا ہو گا اور اس کی شخصیت پر اس سب کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے؟ اس کا ثبوت یہ ہے کہ شکیب لاہور میں ذہنی امراض کے ایک اسپتال میں کچھ عرصہ زیرِ علاج بھی رہے۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ شکیب جیسے شاندار تخلیق کار کے معاشی حالات اور ذہنی بیماری سے لوگ لاعلم تو نہیں تھے۔ تو کیا یہ سب کی ذمہ داری نہیں تھی کہ ان کا خیال رکھتے اوران کا باقاعدہ اچھی طرح علاج کرواتے۔ لیکن یہاں تو شاید بقول شکیب کچھ ایسی صورت حال تھی۔
تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ
ایسا بھی نہیں تھا کہ شکیب کو زندگی سے محبت نہیں تھی۔ ایک اکتاہٹ تو مزاج میں تھی لیکن وہ زندگی سے کچھ ایسے بھی بیزار نہیں تھے۔ انھیں زندگی کے رنگوں سے لطف کشید کرنا بھی آتا تھا، نہیں تو ایسے شعر کون کہہ سکتا ہے۔
تعریف کیا ہو قامت دلدار کی شکیب
تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
لیکن دوسری طرف شکیب کے اندر جو جنگ جاری تھی اس کا اظہار کچھ اور ہی منظر بنارہا تھا جو انھیں کھینچ کر لے گیا۔
آ کر گرا تھا ایک پرندہ چٹان پر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے لہو سے تر
شکیب کی شاعری کے جدید اردو غزل پر بہت گہرے اثرات ہیں جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ان کے منفرد اسلوب کی ایک نمائندہ غزل دیکھیے۔
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا
ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
فسانۂ جگر لخت لخت ایسا تھا
ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا
یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا
کہاں کی سیر نہ کی توسن تخیل پر
ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا
ادھر سے گزرا تھا ملک سخن کا شہزادہ
کوئی نہ جان سکا ساز و رخت ایسا تھا
ملکِ سخن کا یہ شہزادہ 12 نومبر1966 کو دنیا سے کوچ کر گیا۔