دنیا میں ہر 10 منٹ کے بعد ایک خاتون یا لڑکی اپنے شریک حیات، مرد ساتھی یا قریبی رشتے داروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے۔
یو این ویمن اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ سال روزانہ اوسطاً 140 خواتین اور لڑکیاں اس جرم کا نشانہ بنیں تاہم ایسی اموات کی تشویشناک حد تک بڑھتی تعداد کے باوجود اس مسئلے پر جامع اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں اور متوقع طور پر یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور: قتل کیس میں ضمانت پر جیل سے نکلتے ہی خاتون قتل
دونوں اداروں نے یہ انکشافات خواتین پر تشدد کے خلاف 25 ویں عالمی دن پر جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کیے۔ یہ دن 25 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہوئے اس پر قابو پانے کے فوری اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس دن پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد انسانیت کے لیے شرم کی بات ہے۔ دنیا کو اس مسئلے کا خاتمہ کرنے کے لیے انصاف اور احتساب یقینی بنانا ہو گا۔
سرفہرست براعظم
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد بعض ممالک، سماجی معاشی صورتحال اور ثقافتوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ یہ مسئلہ دنیا بھر میں موجود ہے اور ہر جگہ اس کی شدت اور انداز مختلف ہیں۔
مزید پڑھیے: لیہ، کھانے میں تاخیر پر سرالیوں نے خاتون کو قتل کر دیا
براعظم افریقہ شریک حیات، مرد ساتھی اور خاندان کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد کے اعتبار سے سرفہرست ہے جہاں سنہ 2023 میں 21,700 خواتین اور لڑکیوں کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے بعد امریکا اور اوشیانا کا نمبر آتا ہے۔
یورپ اور براعظم ہائے امریکا میں ایسی بیشتر متاثرین اپنے شریک حیات یا مرد ساتھی کے ہاتھوں ہلاک ہوئیں اور خواتین پر تشدد کے نتیجے میں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں ان کی تعداد بالترتیب 64 اور 58 فیصد تھی۔
افریقہ اور ایشیا میں خواتین کے اپنے شریک حیات، مرد ساتھیوں کے بجائے خاندان کے ارکان کے تشدد سے ہلاک ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ اعدادوشمار اس مسئلے کے مختلف ثقافتی اور سماجی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
معلومات اور احتساب کی ضرورت
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 37 ممالک کے پاس سنہ 2023 میں شریک حیات یا مرد ساتھیوں اور خاندان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی خواتین کے بارے میں اعدادوشمار موجود ہیں جبکہ سنہ 2020 میں یہ تعداد 75 تھی۔ معلومات کی یہ کمی اس جرم کے بارے میں رحجانات کا اندازہ لگانے اور احتساب یقینی بنانے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: بیوی اور ہونے والے بچے کے قتل میں ملوث شخص گرفتار
یو این ویمن اور یو این او ڈی سی نے خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کی وسیع تر حکمت عملی میں ان معلومات کی لازمی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اداروں کا کہنا ہے کہ آگاہی پر مبنی حکمت عملی کی تیاری، پیش رفت کا اندازہ لگانے اور حکومتوں کو صنفی مساوات کے حوالے سے اپنے وعدوں سے متعلق جوابدہ بنانے کے لیے درست اور شفاف معلومات کی دستیابی ضروری ہے۔
دنیا کی ذمے داری
خواتین پر تشدد کی روک تھام سے متعلق بیجنگ اعلامیے اور پلیٹ فارم فار ایکشن کو آئندہ برس 3 دہائیاں مکمل ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ صںفی مساوات سے متعلق پائیدار ترقی کے ہدف 5 کو حاصل کرنے کا مقررہ وقت بھی قریب آ رہا ہے۔ اس صورتحال میں یہ رپورٹ دنیا سے اس مسئلے پر سنجیدہ اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔
یو این او ڈی سی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ ولی کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ ایسے مضبوط فوجداری نظام کی ضرورت کو واضح کرتی ہے جس میں خواتین پر تشدد کرنے والوں کا احتساب ہو، متاثرین کو ضروری مدد فراہم ہو سکے اور انہیں اس مسئلے کی اطلاع دینے کے محفوظ اور شفاف نظام تک رسائی بھی ملے۔
تشدد کے خلاف مہم
یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس کا کہنا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے مؤثر قوانین، درست معلومات، حکومت سے جواب طلبی اور تشدد مخالف سوچ کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ: 3 بھائیوں نے غیرت کے نام پر بہن اور نوجوان لڑکے کو قتل کردیا
سیما باحوس نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور اداروں کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بھی بڑھانی ہو گی۔
یہ رپورٹ ایسے موقع پر جاری کی گئی ہے جب خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے 16 روزہ مہم کا آغاز بھی ہو رہا ہے۔ پیر کو شروع ہونے والی یہ مہم 10 دسمبر تک جاری رہے گی۔ امسال اس مہم میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کی جانب توجہ دلائی جا رہی ہے۔